حج کی فضیلت اور طریقۂ کار

حج اسلام کا پانچواں رکن ہے اور ہر صاحب حیثیت مسلمان پر حج کرنا فرض ہے۔ قرآن مجید کے مطابق جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ ایسے منکرین کے افعال سے غنی ہے۔ کتب احادیث میں حج کی عظمت اور فضیلت کے حوالے سے بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں: بخاری شریف اور صحیح مسلم کی حدیث ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا کہ (دین اسلام میں) کون سا عمل بہت بہتر ہے؟ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ (دل سے) اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانا (کہ یہ دل کا عمل ہے)۔ پھرعرض کیا گیا اس کے بعد کون سا عمل (سب سے بہتر ہے)؟ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، پھرعرض کیا گیا کہ اس کے بعد کون سا عمل (سب سے بہتر ہے)؟ حضور کریمﷺ نے ارشاد فرمایا (اس کے بعد) حج مبرور (سب سے بہتر عمل ہے)۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث شریف ہے: اُم المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ سے جہاد پر جانے کی اجازت طلب کی (کہ اگر آپ حکم دیں تو میں بھی جہاد کے لیے نکلوں) تو حضور اکرمﷺ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا کہ تم خواتین کے لیے حج کا سفر ہی جہاد ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث شریف ہے، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے حج کرے اور دورانِ حج (بحالت احرام) اپنی بیوی سے صحبت نہ کرے اور (دورانِ سفر اپنے ساتھیوں سے) بیہودہ کلام یا لڑائی جھگڑا نہ کرے اورکبائر (گناہوں) سے بچتا رہے تو وہ حج کرنے کے بعد (گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو جاتا ہے) جیسا کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے وقت پاک و صاف تھا۔ عمرہ اور حج میں طریقہ ادائیگی کے علاوہ ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ عمرہ سال کے دوران کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے جبکہ حج ماہ ذوالحجہ کے دوران ہی کیا جاتا ہے۔ حج کی تین قسمیں ہیں: حج افراد، حج تمتع اور حج قران۔ حج تمتع چونکہ افضل ترین حج ہے اور اس میں حاجی کو اضافی عمرے کا موقع بھی ملتا ہے، اس لیے حج تمتع کا طریقہ بیان کیا جائے گا۔

حج تمتع کی نیت کرنے والے حاجیوں کو شوال، ذی القعد یا ذی الحج میں میقات پر پہنچ کر احرام پہننا چاہیے۔ اگر وہ احرام اپنے گھر سے پہن کر نکلتے ہیں تو اس صورت میں انہیں میقات پر پہنچ کر احرام کی نیت کر نا ہو گی۔ رسول اللہﷺ نے حج اور عمرے کے لیے مختلف ممالک اور شہروں سے آنے والوں کے لیے مختلف مقامات کو میقات مقرر فرمایا۔ حج تمتع کی نیت کرنے والا شخص جب احرام پہننا چاہے تو اس کو غسل کرنے کے بعد دو اَن سلی چادریں پہن لینا چاہئیں اور ایسے جوتے پہننے چاہئیں جن میں اس کے ٹخنے ننگے ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: تمہیں تہہ بند، چادر اور جوتوں میں احرام باندھنا چاہیے۔ اگر جوتے نہ ہوں تو موزے پہن لو لیکن انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لو۔ مسلم شریف میں حدیث مذکور ہے، حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جسے جوتے نہ ملیں وہ موزے پہن لے اور جسے تہہ بند نہ ملے وہ پائجامہ پہن لے۔

احرام باندھنے کے ساتھ ہی بہ آواز بلند تلبیہ پڑھنا چاہیے۔ تلبیہ کے الفاظ کا سلیس ترجمہ یہ ہے: ”حاضر ہوں اے اللہ، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں ہے، بے شک ہر قسم کی تعریف اور نعمت تیری ہی ہے اور بادشاہت بھی تیری ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں ہے‘‘۔ تلبیہ پڑھنے کے بعد انسان کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور جنت کا سوال کرنا چاہیے اور (جہنم کی) آگ سے پنا ہ مانگنی چاہیے، اس لیے کہ یہ عمل مسنون ہے۔ بلند آواز سے تلبیہ پڑھنے سے حج اورعمرے کے اجر و ثواب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مسجد الحرام میں داخل ہوتے ہوئے وہی دعا مانگنی چاہیے جو رسول اللہﷺ مساجد میں داخل ہوتے ہوئے مانگتے کہ ”اللہ کے نام سے داخل ہوتا ہوں، اللہ کے رسولﷺ پر سلام ہو۔ اے اللہ میرے گناہوں کو معاف فرما اور اپنی رحمت کے دروازے میرے لیے کھول دے‘‘۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم شریف میں روایت ہے کہ حضرت عروہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے حج کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے بتایا کہ جب رسول کریمﷺ مکہ میں تشریف لائے تو سب سے پہلے آپﷺ نے وضو کیا، پھر بیت اللہ شریف کا طواف کیا۔

طواف کی ابتداء حجراسود کو بوسہ دینے، چھونے یا اس کی طرف اشارہ کرنے سے ہوتی ہے۔ طواف سات چکروں میں مکمل کیا جاتا ہے اور یہ سات چکر گھڑی کی سوئیوں کی حرکت سے الٹی جہت پر لگائے جاتے ہیں۔ طواف کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے تین چکر تیزی سے اور باقی چکر عام رفتار سے مکمل کیے جائیں۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان ”ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاٰخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘ کا کثرت سے ورد کرنا چاہیے۔ جب سات چکر مکمل ہو جائیں تو اس کے بعد مقامِ ابراہیم پر آکر دو نوافل ادا کرنے چاہئیں اوراگر مقامِ ابراہیم پر جگہ نہ مل سکے تو اس جگہ کے دائیں، بائیں یا عقب میں جہاں بھی جگہ ملے دو نوافل ادا کر لیں۔ طواف مکمل کرنے کے بعد حجاج کو صفا پہاڑی کا قصد کرنا چاہیے اور صفا پہاڑی پر پہنچ کر وہ دعا مانگنی چاہیے جو نبی کریمﷺ نے مانگی تھی۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ باب الصفا سے صفا پہاڑی کی طرف نکلے۔ جب پہاڑی کے قریب پہنچے تو آپﷺ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: ”بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیاں ہیں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: میں سعی کی ابتدا اسی پہاڑی سے کرتا ہوں جس کے ذکر سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ابتدا کی ہے۔ پس آپ ﷺ نے سعی کی ابتدا صفا سے کی۔

آپﷺ صفا پہاڑی کی اتنی بلندی پر چڑھے کہ بیت اللہ شریف نظر آگیا پھر قبلہ رخ ہوئے اور اللہ کی توحید اور تکبیر ان الفاظ میں بیان فرمائی: ”اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں‘ وہ اکیلا ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں‘ بادشاہی اور حمد اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے‘ اس نے وعدہ پورا کیا، اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تمام لشکروں کو تنہا شکست دی‘‘۔ اس کے بعد آپﷺ نے دعا فرمائی اور یہ عمل آپﷺ نے تین مرتبہ کیا۔ صفا پر کی جانے والی دعائوں سے سعی کا آغاز ہوتا ہے اور حاجی مروہ تک جاتا ہے۔ صفا کی طرف جاتے ہوئے جب نشیبی علاقہ آئے تو حاجی کو تیز قدم اٹھانے چاہئیں اور جب نشیبی علاقہ ختم ہو جائے تو حاجی کو رفتار دوبارہ معمول پر لے آنی چاہیے۔ تیز رفتار سے چلنے والے علاقے کے تعین کے لیے صفا اور مروہ کے درمیان چھت پر سبز نشان لگا دیے گئے ہیں، ان نشانات کے درمیان تیز چلنا چاہیے اور باقی حصے میں آرام سے چلنا چاہیے۔ اگر بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے کوئی تیز نہ چل سکے تو آرام سے چلنا بھی درست ہے۔ صفا سے مروہ تک ایک چکر اور مروہ سے صفا تک دوسرا چکر مکمل ہوتا ہے۔

ان چکروں کے درمیان حاجی کوکثرت سے اللہ کا ذکر کرنا چاہیے۔ جب سات چکر مکمل ہو جائیں تو حاجی کو اپنے بال منڈوانے یا کتروانے چاہئیں اور خواتین کو سر کے بال اکٹھے کر کے آخر سے کاٹ یا کٹوا لینے چاہئیں۔ بال کٹوانے کے بعد عمرہ مکمل ہو جاتا ہے اور حاجی عمرے کا احرام اتار کر احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ 8 ذوالحجہ تک حاجی کو چاہیے کہ کثرت سے دعائیں، استغفار، درود شریف کا ورد، بیت اللہ شریف کا طواف کرتا رہے۔ جب 8 ذوالحجہ آ جائے تو حاجیوں کو اپنی قیام گاہوں میں ہی دوبارہ احرام باندھ لینے چاہئیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے میقات کے اندر رہنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنی رہائش گاہ سے احرام باندھیں، حتیٰ کہ مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر لوگ مکہ مکرمہ سے ہی احرام باندھیں۔

احرام باندھنے کے بعد حاجیوں کو ظہر سے پہلے منیٰ پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت جابرؓ سے حجۃ الوداع کی حدیث میں روایت ہے کہ جب یوم ترویہ آیا تو صحابہ کرامؓ نے مکہ مکرمہ سے ہی احرام باندھا اور منیٰ کے لیے روانہ ہوئے۔ رسول کریمﷺ سواری پر نکلے اور منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں ادا کیں، پھر تھوڑی دیر رکے‘ یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا۔ اگرچہ 8 ذوالحجہ کو ظہر سے قبل منیٰ پہنچنا سنت ہے لیکن اگر کوئی شخص وقت پر نہ پہنچ سکے تو بھی اس کا حج ادا ہو جاتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مکہ مکرمہ سے جب منیٰ پہنچیں تو ایک تہائی رات بیت چکی تھی۔ 8 ذوالحجہ کو منیٰ پہنچنے کے بعد پانچ نمازوں کی ادائیگی مکمل ہونے پر 9 ذوالحجہ کا آغاز ہو جاتا ہے۔

8۔ ذی الحجہ کو نمازِ ظہرکے وقت منیٰ میں داخل ہونے سے لے کر 9 ذی الحجہ کی صبح نمازِ فجر تک 5 نمازیں منیٰ میں ادا کرنا مسنون ہے۔ جب 9 ذی الحجہ کو سورج طلوع ہو جائے، تو اس کے بعد تمام حاجیوں کو میدانِ عرفات کا قصد کرنا چاہیے۔ میدانِ عرفات کی طرف جاتے ہوئے بلند آواز سے تلبیہ یا تکبیرات کا ورد کرنا چاہے۔ مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ منیٰ سے عرفات کے لیے نکلے، ہم میں سے کوئی تلبیہ کہہ رہا تھا اور کوئی تکبیر۔ منیٰ سے میدانِ عرفات کا قصد کرتے ہوئے اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ نبی کریمﷺ زوال آفتاب تک وادیٔ نمرہ میں رُکے تھے اور خطبہ دینے کے بعد آپﷺ ظہر اور عصر کی نماز ادا کر کے میدانِ عرفات میں داخل ہوئے تھے۔ صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ حجۃ الوداع والی حدیث میں فرماتے ہیں: ”پھر رسول اللہﷺ (منیٰ سے عرفات کی سمت چلے تو قریش کا گمان تھا کہ نبی کریمﷺ مزدلفہ ہی قیام فرمائیں گے جیسا کہ قریش زمانۂ جاہلیت میں کیا کرتے تھے) لیکن آپﷺ آگے تشریف لے گئے یہاں تک کہ عرفات میں پہنچ گئے جہاں وادیٔ نمرہ میں آپ کے لیے خیمہ لگایا گیا تھا۔ آپﷺ نے وہاں قیام فرمایا۔ جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے اپنی اونٹنی قصویٰ کو تیارکرنے کا حکم دیا۔ آپﷺ اس پر سوار ہو کر وادیٔ نمرہ کے بیچ میں تشریف لائے۔ وہاں آپﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا‘‘۔

نبی کریمﷺ کا یہ خطبہ‘ خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے معروف ہے۔ اس خطبہ میں آپ نے دینی اور دنیاوی اعتبار سے اپنی امت کی رہنمائی کے لیے بہت سے اہم ارشادات فرمائے۔ آپ نے اپنی امت کو یہ پیغام دیا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں‘ تم جب تک ان کو تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہو سکتے؛ ایک اللہ کی کتاب، دوسری میری سنت ہے۔ آپﷺ نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت نہیں مگر تقویٰ کے ساتھ۔ آپﷺ نے جائز اور معروف کاموں میں حکمرانوں کی تابعداری کا حکم دیا‘ چاہے حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ آپﷺ نے اس موقع پر عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی بھی تلقین فرمائی، آپﷺ نے اس موقع پر سودی نظام کے کلی خاتمے کا اعلان کیا اور جاہلیت کی قتل و غارت گری کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپﷺ نے مسلمان کے خون کو انتہائی مقدس قرار دیا اور کسی بھی طور اس کی حرمت کی پامالی کی اجازت نہ دی۔

پھر اذان اور اقامت ہوئی، آپﷺ نے ظہرکی نماز پڑھائی، دوبارہ اقامت ہوئی۔ آپﷺ نے عصرکی نماز پڑھائی۔ ان دونوں نمازوں کے درمیان آپﷺ نے کوئی نماز ادا نہیں کی، پھر آپﷺ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور عرفات میں کھڑے ہونے کی جگہ تشریف لائے۔ حج کے خطبہ کو نہایت توجہ کے ساتھ سننا چاہیے لیکن اگر ہجوم کی وجہ سے خطبہ حج نہ سنا جا سکے تو خاموشی کے ساتھ خطبہ کی طرف متوجہ رہنا بھی کفایت کرے گا۔ اگرچہ میدانِ عرفات میں ظہر اور عصرکی نماز کی ادائیگی کے بعد داخل ہونا مسنون اور افضل عمل ہے لیکن اگر رش اور مجبوری کے سبب کوئی شخص تاخیر سے میدانِ عرفات میں داخل ہو تو اس کا حج ادا ہو جائے گا۔
سنن نسائی میں حضرت عبدالرحمن بن یعمرؓ سے روایت نقل کی گئی ہے، آپؓ کہتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺ کے پاس تھا کہ کچھ لوگ آئے اور حج کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: حج عرفات میں ٹھہرنے کا نام ہے جو شخص مزدلفہ کی رات یعنی 9 اور 10 ذی الحج کی درمیانی رات طلوع فجر سے پہلے عرفات میں پہنچ جائے اس کا حج ادا ہو جائے گا۔

نمازِ ظہر اور عصرکی ادائیگی کے بعد جبل رحمت کے قریب آنا چاہیے‘ اگر جگہ نہ ملے تو میدانِ عرفات میں کسی بھی جگہ وقوف (رُکنا‘ قیام کرنا) کرنا درست اور جائز ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں نے یہاں قربانی کی ہے اور منیٰ کا میدان سارے کا سارا قربانی کی جگہ ہے لہٰذا تم لوگ اپنی قیام گاہوں پر قربانی کر لو اور میں نے یہاں پر وقف کیا اور میدانِ عرفات سارے کا سارا وقوف کی جگہ ہے۔ میدان عرفات میں قبلہ رُو ہو کر کھڑے ہونا سنت ہے۔ مسلم شریف میں حضرت جابر بن عبداللہؓ حجۃ الوداع والی حدیث میں روایت فرماتے ہیں: نبی کریمﷺ قبلہ رو ہوئے اور آپﷺ نے غروبِ آفتاب تک وقوف فرمایا۔ میدانِ عرفات میں حاجی کو کثرت سے دعا مانگنی چاہیے۔ دعا کے لیے ہاتھوں کو اٹھانا بھی سنت ہے۔ سنن نسائی میں حدیث ہے: حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ میں عرفات میں نبی کریمﷺ کے پیچھے تھا۔ آپﷺ نے دعا مانگنے کے لیے دونوں ہاتھ اٹھا رکھے تھے۔ اسی دوران آپ کی اونٹنی کی نکیل آپﷺ کے دست مبارک سے چھوٹ گئی تو آپﷺ نے ایک ہاتھ سے اس کی نکیل تھام رکھی تھی اور دوسرا ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے رکھا۔

وقوفِ عرفات کے دوران حاجیوں کو اس بات کی تحقیق بھی کر لینی چاہے کہ وہ میدانِ عرفات میں قیام پذیر ہوں۔ اگر وہ عرفات کے میدان کے بجائے وادیٔ نمرہ میں ہی ٹکے رہتے ہیں تو اس سے وقوفِ عرفات کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ امام طحاویؒ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: میدانِ عرفات سارے کا سارا موقف ہے لیکن وادی عرنہ یعنی نمرہ سے بچو اور مزدلفہ سارے کا سارا موقف ہے لیکن وادیٔ محسر سے بچو اور منیٰ سارے کا سارا قربان گاہ ہے۔ میدانِ عرفات میں اگرچہ بہت سی دعائیں کی جاتی ہیں لیکن میدانِ عرفات کی بہترین دعا یہ ہے ”لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیئٍ قدیر‘‘ رسول اللہﷺ نے اس دعا کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ دعا یوم عرفہ کی بہترین دعا ہے اور یہ وہ بہترین کلمات ہیں جو نبی کریمﷺ اور آپﷺ سے پہلے آنے والے انبیاء کرام نے کہے تھے۔ دعا کا ترجمہ کچھ یوں ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ وہ اکیلا ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں‘ بادشاہت اور تعریف اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

یوم عرفہ آگ سے برأت کا دن ہے اور اللہ تعالیٰ اس دن کثیر تعداد میں اپنے بندوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتے ہیں۔ مسلم شریف میں روایت ہے‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ عرفہ کے علاوہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کثرت سے بندوں کو آگ سے آزاد کرے۔ اس روز اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے بہت قریب ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے ان کی وجہ سے فخر کرتا ہے اور فرشتوں سے پوچھتا ہے ”(ذرا بتائو تو) یہ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘ وقوفِ عرفات کا دن حاجیوں کے لیے تو روزے کا دن نہیں ہوتا؛ تاہم عام مسلمانوں کواس دن روزہ رکھنے کا بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ گزشتہ ایک برس اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ عرفات میں وقوف کے دوران جب سورج ڈوب جاتا ہے تو مغرب کی نماز کی ادائیگی کے بجائے عرفات سے کوچ کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حج کا ایک بڑا درس اتباع رسول اللہﷺ ہے۔ رسول اللہﷺ عام ایام میں سورج ڈوبنے پر نمازِ مغرب ادا کرتے تھے‘ اس لیے مسلمان بھی سورج ڈوبنے پر مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں لیکن میدانِ عرفا ت میں آپﷺ نے سورج ڈوبنے پر مغرب کی نماز ادا نہ کی‘ اس لیے مسلمان بھی آپﷺ کی سنت کی اتباع کرتے ہوئے سورج ڈوبنے پر مغرب کی نماز ادا کرنے کے بجائے مزدلفہ کی طرف چل پڑتے ہیں۔

مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نماز یں ادا کرنا چاہئیں۔ نبی کریمﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز ادا فرمائی اور طلوعِ فجر تک آرام فرمایا۔ جب صبح نمودار ہوئی تو آپﷺ نے اذان اور اقامت کے بعد فجرکی نماز ادا فرمائی‘ پھر اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہوکر مشعر الحرام تک تشریف لائے اور قبلہ رخ ہوکر دعائیں مانگیں‘ تکبیر وتہلیل کی اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت بیان فرمائی حتیٰ کہ صبح روشن ہوگئی۔ پھر آپﷺ سورج طلوع ہونے سے پہلے منیٰ کی طرف روانہ ہو گئے۔ خواتین، بچوں اور بوڑھے افراد کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ وقت سے پہلے بھی مزدلفہ سے کوچ کر سکتے ہیں۔ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بھاری بھرکم خاتون تھیں۔ انہوں نے رسول اللہﷺ سے رات کے وقت مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہونے کی اجازت چاہی تو نبی کریمﷺ نے ان کو اجازت دے دی۔ رسول اللہﷺ مزدلفہ سے منیٰ کی طرف آ تے ہوئے بڑے سکون اور وقار سے چلے اور لوگوں کو بھی سکون سے چلنے کا حکم دیا، تاہم آپﷺ وادیٔ محسر سے تیزی کے ساتھ گزرے، وادی محسر مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان میں وہ وادی ہے جہاں اصحابِ فیل پر عذاب نازل ہوا تھا۔ اس لیے آپﷺ نے وہاں سے لوگوں کو جلد گزرنے کا حکم دیا۔ مزدلفہ سے منیٰ کی طرف آتے ہوئے تلبیہ کو جاری رکھنا چاہیے اس لیے کہ نبی کریمﷺ رمی کرنے تک بلند آواز سے تلبیہ پڑھتے رہے۔

۔10 ذوالحجہ‘ حجاج اور تمام مسلمانوں کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن حاجی میدانِ منیٰ میں اور دنیا بھر کے مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں قربانی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سابق اُمتوں پر بھی قربانی کو لازم کیا تھا اور واجب قرار دیا تھا کہ جانور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے۔ قربانی کی تاریخ اگرچہ بہت قدیم ہے لیکن اسے اپنے کردار اور اعمال سے جس قدر روشن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا‘ اس کی مثال ان سے پیشتر نہیں ملتی۔ بڑھاپے کے عالم میں اللہ تعالیٰ سے ایک صالح بیٹے کے لیے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام جیسا حلیم بیٹا عطا فرما دیا۔ بیٹا ابھی گود میں ہی تھا کہ اللہ کے حکم پر جناب ہاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو بے آب وگیاہ وادی میں تنہا چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہ اور جناب اسماعیل علیہ السلام کے لیے چشمۂ زمزم رواں فرمایا اور اچھے رفقا اور ساتھی بھی عطا فرما دیے۔

جب اسماعیل علیہ السلام چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے تو سیّدنا ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ جناب اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو اپنے خواب سے آگاہ کیا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے پورے خلوص اور احترام سے کہا: اے میرے بابا آپ وہ کریں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور جناب اسماعیل علیہ السلام نے جب کامل تابعداری کا ذہن بنا لیا تو جناب ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹایا‘ جب آپ چھری چلانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو آواز دی کہ آپ نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا اور اللہ تعالیٰ نے جناب اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے آنے والے جانور کو ذبح کروا دیا۔

یوم النحر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد گار ہے۔ حضرت رسول اللہﷺ خود بھی قربانی کرتے رہے اور آپؐ نے اپنی امت کو بھی قربانی کرنے کی تلقین کی۔ حضرت رسول اللہﷺ نے زندگی کے مختلف ادوار میں مختلف طرح کی قربانی کی۔ کشادگی ہوئی تو سو اونٹ بھی قربان کیے‘ جب عسرت کے ایام آئے تو دو مینڈھے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ذبح کیے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کو جانوروں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کرنے والے کا تقویٰ پہنچتا ہے‘ اس لیے جب بھی کوئی شخص قربانی کرنے کے لیے جانور کو لٹائے تو اس کو چھری صرف جانور کے گلے پر نہیں چلانی چاہیے بلکہ یہ چھری جھوٹی امنگوں، غلط آرزوئوں اور سرکش خواہشات پر بھی چلنی چاہیے۔ یوم النحرمیں جمرات کو کنکریاں مارنا، اپنے سر کے بالوں کو مونڈنا اور طوافِ زیارت کرنا بھی شامل ہے۔ ان کی مسنون ترتیب یہ ہے کہ پہلے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماری جائیں، اس کے بعد قربانی کی جائے‘ اس کے بعد حجامت کی جائے اور اس کے بعد طوافِ زیارت کیا جائے۔

اگرچہ یہ ترتیب افضل ہے لیکن اگر کوئی غیر ارادی طور پر اس کا اہتمام نہ کر سکے تو شریعت اس کا مواخذہ نہیں کرتی‘ اس لیے کہ رسول اللہﷺ نے اس ترتیب پر سختی نہیں برتی۔ یوم النحرکو ماری جانے والی کنکریوں کی وضاحت کچھ یوں ہے: جب حاجی مزدلفہ میں 9 ذوالحجہ کی رات وقوف کرتا ہے تو اس کو وہاں سے چنے کے حجم کے برابر کی سات کنکریاں چن لینی چاہئیں۔ سنن نسائی میں حدیث ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریمﷺ اونٹنی پر سوار تھے۔ میں نے آپﷺ کے لیے سات کنکریاں اکٹھی کیں جنہیں دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکا جا سکے۔ جب وہ کنکریاں آپؐ کے ہاتھ میں رکھ دیں تو آپ ؐنے فرمایا: ہاں ایسی ہی کنکریاں ٹھیک ہیں اور آپ ؐنے یہ بھی فرمایا کہ دین میں غلو کرنے سے بچو، تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو نے ہی ہلاک کیا تھا۔

بیمار بوڑھوں اور بچوں کی طرف سے صحت مند نوجوان کنکریاں مار سکتے ہیں۔ کنکری جمرہ عقبہ کو نشانہ بنا کر مارنا چاہیے۔ جب تک رسول اللہﷺ نے جمرہ عقبہ کو کنکریاں نہیں مارنا شروع کیں اس وقت تک آپ تلبیہ کہتے رہے اور جب کنکریاں مارنے کی باری آئی تو آپ نے ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہا۔ اس رمی کا بنیادی مقصد بھی اللہ کا ذکر کرنا ہی ہے۔ 10 ذوالحجہ کو طواف زیارت کرنے کے بعد حاجی پر احرام کی تمام پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ ایام تشریق 10 ذوالحجہ کے بعد کے تین دن ہیں۔ ان ایام میں کم از کم دو دن منیٰ میں گزارنے ضروری ہیں اوربہتر ہے کہ تین دن ہی منیٰ میں گزارے جائیں۔ اگر کوئی شخص کسی مجبوری کی وجہ سے 10 ذوالحجہ کو طواف زیارت نہیں کر سکا تو وہ ایام تشریق میں بھی طوافِ زیارت کر سکتا ہے۔ طوافِ زیارت کے بعد حاجی کے لیے حج کی سعی کرنا بھی ضروری ہے اور اس کو صفا اور مروہ کی سعی اسی طرح مکمل کرنی چاہیے جس طرح اس نے عمرے کی سعی کی تھی۔

طوافِ زیارت اور حج کی سعی کرنے کے بعد حاجی کے لیے منیٰ میں واپس آنا ضروری ہے۔ اگر کوئی خاص مجبوری ہو تو ایام تشریق کے دوران مکہ مکرمہ میں بھی قیام کیا جا سکتا ہے۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں ایام تشریق کو کھانے پینے کے دن اور ایک روایت میں اللہ کا ذکر کرنے کے دن قرار دیا گیا ہے۔ ان ایام میں بیت اللہ شریف کا جس حد تک ممکن ہو طواف کرنا چاہیے اور راتوں کو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور یاد میں مشغول رہنا چاہیے۔ ان ایام میں حاجیوں اور عام مسلمانوں کے لیے روزہ رکھنا درست نہیں تاہم جو شخض حج تمتع کر چکا ہو اور اضافی عمرہ کرنے کے بعد وسائل کی تنگی کی وجہ سے قربانی کرنے سے قاصر ہو تو ایسے شخص کو ایام تشریق کے دوران تین روزے رکھنے چاہئیں اور اپنے وطن واپس آکر اس کو سات روزے مزید رکھنے چاہئیں۔ یہ دس روزے اس کی قربانی کا کفارہ بن جاتے ہیں۔

عرفات، مزدلفہ اور منیٰ بنیادی طور پر کھلے میدان ہیں۔ ان میدانوں میں خیمہ زن حاجی مہاجروں اور مسافروں کی طرح کھلے آسمان کے نیچے قدرتی ماحول میں جب اپنے اللہ سے رازونیاز کی باتیں کرتا ہے تو اس پر اپنی اور کائنات کی بے وقعتی پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ اسی فطری ماحول میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اجرامِ سماویہ کی حقیقت کا تجزیہ کیا تھا اور ستارے، چاند اورسورج کو ڈوبتا ہوا دیکھ کر کہا تھا کہ میں اپنے چہرے کو اس ذات کی طرف موڑتا ہوں جو زمین اور آسمان کا بنانے والا ہے اور آپ نے ہرچیزسے اپنا تعلق منقطع کر کے صرف خالقِ کل اور مالکِ کل سے اپنا تعلق استوار کر لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اہلِ ایمان کی اس کیفیت کا ذکر کیا ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے اور اپنے پہلوئوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کر کے یہ بات کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! آپ نے جو کچھ بھی بنایا ہے باطل نہیں بنایا، آپ کی ذات پاک ہے، ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔

ایامِ تشریق کے گزرنے پر حج کے جملہ ارکان مکمل ہو جاتے ہیں لیکن اپنے وطن واپسی سے قبل ضروری ہوتا ہے کہ حاجی بیت اللہ شریف کا الوداعی طواف کرے؛ البتہ حائضہ کو اس کی رخصت دی گئی ہے۔ طوافِ وداع حاجی کے لیے جہاں باعث اطمینان و سکون ہوتا ہے کہ وہ ارکانِ حج کو مکمل کر چکا ہے، وہیں طوافِ و داع اس کے لیے باعثِ غم بھی ہوتا ہے کہ اللہ کے گھر سے جدائی کا وقت آن پہنچا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جنہوں نے تیرے گھر کی زیارت نہیں کی‘ ان کو اپنے گھر کی زیارت سے شرف یاب فرما اور جن لوگوں نے زیارت کی ہے ان کو دوبارہ زیارت کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہم تمام مسلمانوں کو ارکانِ اسلام کو سمجھنے اور ان پر عمل پیراہونے کی توفیق عطا فرما۔ آمین

علامہ ابتسام الہٰی ظہیر

مکہ کی تعمیر و ترقی

دنیا بھر میں تقریبا ڈیڑھ ارب مسلمان بستے ہیں۔ فرض کیجئے اگر ان میں سے صاحب استطاعت ایک ارب افراد زندگی میں کم سے کم ایک مرتبہ اسلام کا پانچواں رکن یعنی ’حج‘ ادا کرنا چاہیں تو موجودہ وسائل کے اندر اتنی بڑی تعداد کو حج کرانے کے لئے 500 برس درکار ہوں گے۔ دو ملین افراد کو سالانہ حج کرایا جا سکتا ہے کیونکہ فی الوقت مکہ شہر اتنی ہی تعداد میں حجاج کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مناسک حج کی ادائی چونکہ مخصوص وقت اور مقامات پر ممکن ہوتی ہے، اس لئے اس فریضہ کا کوئی متبادل تلاش نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ آنے والے برسوں میں مختلف توسیعی منصوبوں اور انتظامات میں مزید بہتری کے باوجود ایک سیزن میں پانچ ملین افراد سے زیادہ لوگوں کو حج نہیں کرایا جا سکتا۔ اگر ایسا ہو جائے تو دنیا بھر کے مسلمانوں کی ایک تہائی تعداد اگلے 100 برسوں میں حج کرنے مکہ جا سکے گی۔
مسلمانوں کی بڑی اکثریت کی دلی خواہش پوری کرنے کی ممکنہ صورت عازمین حج کے بجائے عمرہ زائرین کی تعداد میں اضافہ ہے۔ فی الوقت عمرہ زائرین کی سالانہ تعداد سات ملین ہے، تاہم سعودی حکومت کے پروگرام ویژن 2030 میں اسے 30 ملین سالانہ کرنے کا پروگرام ہے۔

اولوالعزم منصوبہ
ویژن 2030 الوالعزمی کا مظہر پروگرام ہے جس کی تکمیل کے لئے بہت سی سروسز اور متعلقہ سہولیات کو ترقی دینا مقصود ہے۔ نگرانی کرنے والے اعلیٰ حکومتی اداروں کی صلاحیت کار کا جائزہ لئے بغیر اس ویژن کو شرمندہ تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ منصوبہ بندی کی حکمت عملی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس میں زائرین کو مکہ کے وسط میں جمع کرنے کے بجائے انہیں مضافاتی علاقوں میں پھیلایا جائے۔ کیا دنیا بھر سے 30 ملین زائرین سالانہ مکہ آئیں گے؟ یقیناً آئیں گے تاہم حج اور عمرے کے موقع پر سیکورٹی اور سلامتی سے متعلق خدشات برقرار رہیں گے۔ فطری بات ہے کہ ایسے منصوبے کی وجہ سے مکہ میں پورے سال سیکورٹی الرٹ رہے گا۔ اس منصوبے پر عمل درآمد کی صورت میں سعودی عرب کے اندر سے عمرہ اور حج ادا کرنے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔

سعودی حکومت نے دنیا کی سب سے بڑی انجینئرنگ اور تعمیراتی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے متعدد مقامات مقدسہ کی توسیع مکمل کر لی ہے۔ اس توسیع کی برکت سے ان میں اب کئی ملین مسلمان زائرین بیک وقت عبادت کر سکتے ہیں۔ انہی جگہوں کو سال بھر لاکھوں زائرین کے لئے کھلا رکھنے اور اللہ کے مہمانوں کی میزبانی کے لئے وسیع رہائشی سہولیات کے حامل ایک نئے شہر کی تعمیر ناگزیر ہو گئی ہے۔ حکومت اپنے کارکردگی اور ترجیجات پر نظر ثانی سے اس کام کو بہتر بنا سکتی ہے۔ فی الوقت حکومت زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کر رہی ہے تاہم اب اس کام میں نجی شعبے کو شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔  حکومت کا کام منصوبہ بندی اور اس کی نگرانی ہے۔ نیز ایک مبصر اور زیرک اکاونٹنٹ کے طور پر بھی حکومت سارے عمل پر نظر رکھے۔

ایک نیا شہر
ساری صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ مقدس شہر کی وسعت کو دوگنا کرنے کے لئے ایک نیا شہر مکہ آباد کیا جائے۔ نجی شعبے کے لئے بھی اس میں بہت زیادہ مواقع ہوں گے۔ نیا شہر مکہ کے اندر ٹریفک کے رش کو کم کرنے میں مدد دے گا۔ مکہ فی الوقت سنگلاخ چٹانوں میں کنکریٹ کی عمارتوں کا ایک جنگل بن چکا ہے۔ میری رائے ہے کہ حرم کے گرد علاقے سے جدہ کی جانب باہر نکل کر اس عظیم الشان منصوبے پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ مقدس شہر کے وسط میں تعمیرات پر پابندی سے رش کی صورت حال پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ نیز زائرین کی نقل و حرکت اور مختلف سلامتی سے متعلق سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کو اپنا کام کرنے میں آسانی ہو گی۔

مکہ شہر کے وسط سے داخلی راستے تک 20 کلومیٹر کا فاصلہ ہے جہاں سیکڑوں ہوٹل، دکانیں اور سہولیات تعمیر کی جا سکتی ہیں جو 30 ملین زائرین کی میزبانی کے لئے کافی ہوں گے۔ اس سے مکہ کے وسطی علاقے پر دباو کم ہو گا۔
نئی ٹرین سروس مواصلات کی بہتر سہولت فراہم کرے گی۔ یہ سہولیات اور ہوٹل پورا سال کاروبار کریں گے جس کی وجہ سے نجی شعبہ بھی وہاں سرمایہ لگانے کے لئے تیار ہو گا۔ حج اور عمرہ کے ماسٹر پلان تیار کرنے والوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج دنیا بھر کی مسلم آبادی کی خواہشات کی تکمیل ہو گا۔ عمرہ ادا کرنے والوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہو گا۔

عبدالرحمٰن الراشد

Stunning aerial shots of Hajj in Saudi Arabia

The Hajj pilgrimage is one of the five pillars of Islam and Muslims are expected to make the journey at least once in their lifetime. Each year, millions of Muslims retrace the steps of the Prophet Muhammed (PBUH) by going on pilgrimage to the holy city of Mecca in Saudi Arabia. These incredible photos show Muslims perform the Tawaf by circling the Kaaba, the cube-shaped shrine in the centre of the Grand Mosque of Mecca.

 

 

 

 

 

 

 

The Hajj : The Pilgrimage to Mecca

Once a year, Muslims of every ethnic group, colour, social status, and culture gather together in Mecca and stand before the Kaaba praising Allah together. It is a ritual that is designed to promote the bonds of Islamic brotherhood and sisterhood by showing that everyone is equal in the eyes of Allah. The Hajj makes Muslims feel real importance of life here on earth, and the afterlife, by stripping away all markers of social status, wealth, and pride. In the Hajj all are truly equal.
The Hajjis or pilgrims wear simple white clothes called Ihram. During the Hajj the Pilgrims perform acts of worship and they renew their sense of purpose in the world. Mecca is a place that is holy to all Muslims. It is so holy that no non-Muslim is allowed to enter.
For Muslims, the Hajj is the fifth and final pillar of Islam. It occurs in the month of Dhul Hijjah which is the twelfth month of the Islamic lunar calendar. It is the journey that every sane adult Muslim must undertake at least once in their lives if they can afford it and are physically able.

 

 

حج کو براہ راست اسمارٹ فونز پر دیکھنا اب ممکن

دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ پہنچ چکے ہیں، تاہم اس سعادت سے محروم افراد گھر بیٹھے اپنے اسمارٹ فونز اور کمپیوٹر پر بھی مقدس مقامات کی زیارت اب براہ راست کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب کی وزارت ثقافت و اطلاعات (ایم او سی آئی) نے دو ڈیجیٹل پلیٹ فارم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جو عازمین اور حج سے متعلق معلومات فراہم کریں گے۔

SaudiWelcomesTheWorld.org دنیا بھر میں محبت اور بھائی چارگی کا پیغام پھیلانے کے لئے کام کر رہا ہے ۔ یہ پلیٹ فارم ہر قوم، نسل، رنگ اور ثقافت کے حامل لاکھوں عازمین حج کے سچے واقعات بتاتا ہے جس سے روحانی زندگی میں بہتری آتی ہے۔ یہ پلیٹ فارم ان کے سفر کو دنیا کے سامنے لانے کا بھرپور موقع فراہم کرتا ہے جس کا مقصد اسلام کی حقیقی اقدار سے دنیا کو روشناس کرانا ہے۔ سعودی حکومت کے میڈیا پورٹل حج 2017 (www.Hajj2017.org) کے ذریعے حج 2017 کے بارے میں خبروں، معلومات اور تازہ ترین اطلاعات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

اس پورٹل کے ذریعے صحافیوں کو پریس ریلیز، انفوگرافکس اور تصاویر تک رسائی حاصل ہو گی اور وہ ان تمام چیزوں کو ڈاون لوڈ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ پورٹل استعمال کرنے والوں کو تمام پانچوں آفیشل چینلز کی لائیو اسٹریمنگ تک رسائی حاصل ہو گی۔ واضح رہے کہ حج اسلام کے پانچ بنیادی ستونوں میں شامل ہے اور قرآن پاک میں مناسک حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ کے سفر کا ذکر ہے۔ جسمانی و مالی طور پر مستحکم ہر بالغ مسلمان پر زندگی میں ایک بار حج کی ادائیگی فرض ہے۔ سعودی عرب میں فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے اب تک 15 لاکھ سے زائد عازمین آچکے ہیں اور تقریبا 5 لاکھ مزید عازمین آنے کا امکان ہے۔ مناسک حج کا آغاز 30 اگست سے ہو گا اور 4 ستمبر کو اختتام پذیر ہو گا۔

Hajj : Rituals performed by hajj pilgrims

Muslim pilgrims circumambulate the Ka’bah, Islam’s holiest site, located in the centre of the Masjid al-Haram (Grand Mosque). Every year pilgrims perform a series of rituals during the Hajj.

Mecca, Saudi Arabia

 

More than 2.5 million pilgrims are gathering in Makkah for the annual hajj, which all able Muslims are required to perform once in their life.
Following are the rituals: 

Ihram: a state in which pilgrims wear special white outfits: two-piece seamless garments for men and any loose dress for women, who are permitted to reveal hands and faces only. Sex is prohibited during Ihram and pilgrims must refrain from quarreling, covering the head (for men), cutting hair, clipping nails, wearing socks or shoes, except for sandals exposing the instep. Tawaf: Once in Makkah, pilgrims perform Tawaf, or circumambulation, seven times counter-clockwise around the Kaaba, a black masonry cubic shape in the middle of the Haram, or sacred site, in whose direction Muslims pray wherever they are in the world. Each circle starts and ends at the black stone, also known as the cornerstone, at the southern corner of the Kaaba.

Sa’i: Walking back and forth between the two stone spots of Safa and Marwah in seven lengths. The distance between them is just below 400 metres (yards). Pilgrims are emulating Hagar, wife of Ibrahim according to Islam, who was desperately seeking water for her infant Ishmael after they were left by Ibrahim in the barren spot. The preceding rituals are considered Umra, or lesser pilgrimage, made ahead of the hajj’s main rites. The combination is known as hajj al-tamattu. The main hajj rites start on the 8th of Dhul Hijja, the 12th month on the Islamic lunar calendar and whose name means the month of hajj. Pilgrims camp in Mina, around five kilometres (three miles) east of the holy mosque. The day is known as Tarwiah (watering) Day, as pilgrims traditionally watered their animals and stocked water for their trip to Mount Arafat, some 10 kilometres southeast of Mina.

Arafat Day: on the 9th of Dhul Hijja, is the climax of the hajj season as all pilgrims gather on the hill known as Mount Arafat and its surrounding plain. Pilgrims stay at Arafat until the evening reciting from the Koran and praying. Prophet Mohammad (pbuh) is believed to have delivered his final hajj sermon on Mount Arafat.

Descent to Muzdalifah: After sunset on the 9th of Dhul Hijja, pilgrims leave for Muzdalifah, halfway between Arafat and Mina, where they stay at least until midnight. Traditionally they gather pebbles in Muzdalifah to perform the symbolic “stoning of the devil.” 

Stoning of the devil: After dawn prayer on the 10th of Dhul Hijjah, or the Eid Al-Adha feast, pilgrims head back to Mina. The first of three stoning rites, known as Jamarat al-Aqabah, begins after sunrise. Traditionally, seven pebbles are thrown at a post representing the devil. Since 2004 it has been replaced by walls to accommodate the rising numbers of pilgrims. 

Sacrifice: Having done with the first stoning, pilgrims can proceed to offer sacrifice by slaughtering a sheep and the meet is distributed to needy Muslims. This rite is to emulate Ibrahim who prepared to sacrifice his son Ishmael on the order of God, who provided a lamb in the boy’s place at the last moment. Following the sacrifice, men shave their heads or just trim their hair. Women cut a fingertip-length of their hair. They can then end their Ihram and change into their usual clothing. Sex remains prohibited.

Pilgrims then head to the holy site in Makkah, perform Tawaf al-Efadha, circumambulating seven times around the Kaaba, then perform Sa’i between Safa and Marwah seven lengths. With that pilgrims end their Ihram completely. On the 11th, 12th and 13th of Dhul Hijjah, the three days known as Tashreeq Days, pilgrims stay in Mina for two nights and leave on the 12th of the lunar calendar month. They perform the “stoning of the devil” at the three designated sites during the afternoon on the 11th and the 12th days and head to Makkah, which they can leave also on the 12th if they are in a rush.

ترکی نے گھانا کے غریب کسان کا بیت اللہ کی زیارت کا خواب پورا کر دیا

گھانا کا ایک غریب کسان الحسن عبد اللہ جس کی کہانی ترک سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی کہ “ڈرون طیارہ اتنا بڑا ہو جاتا کہ مجھے مکہ لے جاتا” تاکہ وہ بیت اللہ شریف کی زیارت کر سکے. اس کی یہ خواہش پوری ہو گئی ہے. عبد اللہ نے ٹی وی کریو سے اپنے گاؤں میں پوچھا تھا کہ کیا یہ ڈرون طیارہ اتنا بڑا نہیں ہو سکتا کہ مجھے مکہ (سعودی عرب) لے جائے- ترک صحافی نے یہ بات اس کی تصویر کے ساتھ اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر ٹویٹ کر دی جو دیکھتے ہی دیکھتے تمام میڈیا پر وائرل ہو گئی-

ترک وزیر خارجہ میولود چاوش اولو نے نوٹس لیا اور عبداللہ کے لیے حج انتظامات کو ممکن بنا دیا- جمعہ کے روز اسے استنبول لایا گیا جہاں ترک سرکار اور رفاعی اداروں کے نمائندوں نے اس کا استقبال کیا- عبداللہ استنبول پہنچ کر بہت خوشی محسوس کر رہے تھے اور بار بار اللہ تعالی کا شکر ادا کر رہے تھے جس کی مدد سے ترکی نے اس کا خواب پورا کر دیا- ان کا کہنا تھا: “میں اپنے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور میں ہر اس شخص کے لیے دعاگو ہوں جس نے میرے اس خواب کو تعبیر میری مدد کی- ترک ریاست کی مدد میرے لیے بہت قیمتی ہے اور مجھے یقین ہے اس سے مسلمانوں کے درمیان دوستی اور بھائی چارہ مضبوط ہو گا”-

عازمین حج کے لئے مفید ہدایات، انہیں ہر صورت یاد رکھیں

سعودی عرب کے محکمہ شہری دفاع نے حج کے موقع پر اختیار کی جانے والی ہدایات اور احتیاطی تدابیر جاری کردی ہیں۔ اگر آپ عازمین حج ہیں تو نا صرف مندرجہ ذیل ہدایات اور احتیاطی تدابیر کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں بلکہ دوسروں کو بھی اس سے آگاہ کریں۔ تمام ہدایات اور تدابیر خود عازمین حج کی حفاظت اور سلامتی کے لئے جاری کی گئی ہیں۔ مکہ مکرمہ میں محکمہ شہری دفاع نے تمام عازمین سے اپیل کی ہے کہ وہ سرنگوں میں بیٹھنے یا ڈیرہ ڈالنے سے اجتناب کریں کیوں کہ ان میں مضر صحت گیس ہو سکتی ہے۔

معمر عازمین کے علاوہ خواتین اور بچوں کو مناسک کی ادائیگی کیلئے آسانیاں پیدا کریں ،حج دراصل ایثار و قربانی کا دوسرا نام ہے۔ عازمین کو چاہئے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے وہی کچھ پسند کریں جو وہ خود اپنے لئے پسند کرتے ہیں۔ محکمہ شہری دفاع کے اہلکاروں نے کہا کہ مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ میں موجود اہلکار اور سیکورٹی فورس عازمین کی خدمت اور انہیں سہولت فراہم کرنے کیلئے متعین کئے گئے ہیں۔ ان کی ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ یہ اہلکار عازمین کی سلامتی کے حریص ہیں۔

محکمہ شہری دفاع نے عازمین کو ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ عازمین طواف اور دیگر مناسک کی ادائیگی کے دوران دھکم پیل سے اجتناب کریں اور شعائر کی ادائیگی میں جلد بازی نہ کریں۔ جو سرنگیں گاڑیوں کیلئے مختص ہیں ان میں پیدل سفر کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ ان سرنگوں کا رخ کریں جو پیدل سفر کرنے والوں کیلئے مختص ہیں۔ اپنی آرگنائزیشن اورمعلم کے نام کے علاوہ مکتب نمبر کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ جس ہوٹل میں آپ کا قیام ہے اس کا نام ، فون نمبر اور پتہ نوٹ کر لیں۔ منیٰ میں اپنے خیمےکا نمبر یاد رکھیں اور خیمے کے قریب واضح علامتوں کو ذہن میں محفوظ کر لیں۔

منیٰ میں شاہراہوں اور سڑکوں پر بیٹھنے سے اجتناب کریں ۔ سڑکوں پر بیٹھنے سے حادثات رونما ہو سکتے ہیں۔ دھوپ اور بارش سے محفوظ کرنے والی چھتری کا استعمال ضروری ہے، اسے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیں۔ مکہ مکرمہ ، منیٰ اور مشاعر مقدسہ میں حکومت نے آپ کی سہولت اور آسانی کیلئے تمام اسباب فراہم کر رکھے ہیں اس لئے ان حکومتی املاک کی حفاظت کیجئے۔ بسوں میں سوار ہوتے اور اترتے وقت اپنی سلامتی کا خاص خیال رکھیں۔ ہنگامی حالات کے وقت    امدادی گاڑیوں کیلئے راستہ کھلا رکھیں۔

مکہ مکرمہ، منیٰ اور مشاعر مقدسہ میں جہاں بھی آپ کا قیام ہو وہاں فائر فائٹنگ سسٹم کی موجودگی ضروری ہے۔ آگ بجھانے کے آلات رکھنے کی جگہ معلوم کر لیں۔ اس بات کا بھی علم حاصل کر لیں کہ ہنگامی حالات میں نکلنے کا راستہ کون سا ہے۔ ہنگامی حالت کی صورت میں سکون اور اطمینان کو برقرار رکھتے ہوئے معمر افراد، خواتین اور بچوں کو پہلے نکلنے کا موقع دیں۔ خیموں میں آگ جلانے سے مکمل طور پر اجتناب کریں۔ یاد رکھیں کہ حج منصوبہ آپ کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا لہذا اسے کامیاب بنانے میں انتظامیہ کے ساتھ تعاون کریں۔
یاد رکھیں کہ مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ میں سگریٹ نوشی منع ہے، اس سے اجتناب برتیں۔

شاہد نعیم

حجاج و معتمرین احرام کہاں باندھتے ہیں ؟ جانیے

حج اور عمرہ کی غرض سے حجاز مقدس آنے والے فرزندان توحید کے احرام باندھنے کے لیے اسلامی شریعت میں پانچ مقامات مقرر کیے گئے جنہیں ’میقات احرام‘ یا صرف میقات کہا جاتا ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ نے اپنی رپورٹ میں ’میقات‘ اور ان کے بارے میں مستند تفصیلات بیان کی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ’میقات‘ کل پانچ ہیں جنہیں ذوالحلیفہ، قرن المنازل، یلملم ، الجحفہ اور ‘ذاقت عرق‘ کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ کچھ ہنگامی میقات ان کے علاوہ ہیں۔ کسی بھی معتمر کے لیے ان مقامات میں سے کسی ایک سے احرام کے بغیر مسجد حرام کی طرف سفر کرنے کی اجازت نہیں۔ اگر کوئی دانستہ طور پر ’میقات‘ سے احرام باندھے بغیر گذر گیا تو اسے واپس آنا ہو گا یا فدیہ کے طور پر قربانی کرنا ہو گی۔

چونکہ ’میقات‘ سے مناسک عمرہ کے لیے احرام باندھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میقات میں معتمرین اور زائرین کا غیرمعمولی رش رہتا ہے۔ سب سے کم رش ’ذات عراق‘ میقات پر ہوتا ہے۔ یہ میقات شمال مشرقی مکہ سے 94 کلو میٹر دور ہے جہاں عراق اور شمالی نجد سے آنے والے عازمین احرام باندھتے ہیں۔ ذات عرق میقات پر لوگ قافلوں کی شکل میں نہیں اترتے اس لیے یہاں سے احرام باندھنے والوں کا ھجوم نہیں ہوتا۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر کم رش والے میقات میں ’جحفہ‘ کا نام آتا ہے۔ ’جحفہ میقات‘ مکہ معظمہ کے شمال مغرب میں 183 کلو میٹر دور ہے۔ اس میقات سے عموما افریقا، بلاد شام اور دوسرے ملکوں کے عازمین حج وعمرہ کے قافلے گذرتے ہیں۔ دور ہونے کی وجہ سے عازمین کی سہولت کی خاطر ’الجحفہ‘ کا متبادل ’رابغ‘ شہر میں میقات بھی قائم ہے۔

’یلملم‘ میقات مکہ مکرمہ کے جنوب میں 94 کلو میٹر کی دوری پر ہے، یہ اہل یمن اور اس سمت سے آنے والے عازمین کے لیے احرام باندھنے کا مقام ہے۔ اسے ’میقات السعدیہ‘ بھی کہتے ہیں۔ سمندری راستوں سے حج پرآنے والے قافلوں اور غیرمعمولی رش کی بناء پریہ میقات خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ’ذوالحلیفہ‘ میقات مکہ مکرمہ کے شمال میں 450 کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ اس کا دوسرا نام ’ابیار علی‘ ہے۔ یہ میقات مدینہ منورہ اور اس سمت سے آنے والے عازمین حج وعمرہ کے لیے خاص ہے۔ مدینہ منورہ کے ہوائی اڈوں پراترنے والے عازمین کے قافلوں کی وجہ سے اس میقات پر بھی غیرمعمولی رش رہتا ہے۔ جو عازمین ذوالحلیفہ سے گذرنے سے محروم رہتے ہیں وہ مدینہ منورہ کے باشندوں کے حکم میں آتے ہیں۔

سب سے زیادہ رش’قرن المنازل‘ میقات پر ہوتا ہے۔ یہ مکہ مکرمہ کے قریب مشرق کی سمت میں 75 کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ اسے ’سیل الکبیر‘ میقات بھی کہا جاتا ہے۔ یہ میقات اہل نجد کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ اس کا متبادلہ ’وادی محرم‘ میقات بھی موجود ہے۔ نجد، سعودی عرب کے جنوبی شہروں، طائف اور خلیجی ممالک سے آنے والے عازمین اس میقات سے احرام باندھتے ہیں۔
مقامی شہریوں بالخصوص نجد شہر اور مکہ مکرمہ کے عازمین کے لیے ان کے گھر ہی میقات کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ عمرہ یا حج کے لیے اپنے گھروں سے احرام باندھ کر نکلتے ہیں۔ ان شہروں میں رہنے والے غیرمقامی افراد ’التنعیم‘ علاقے میں قائم مسجد السیدہ عایشہ سے احرام باندھتے ہیں۔ ماہ صیام میں یہاں پر بھی غیرمعمولی ھجوم رہتا ہے۔ یہاں رہنے والے مقامی اور غیرملکی مسلمان بیت اللہ کی قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بار بار عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جدہ ۔ حسن الجابر