عاجزی کا راستہ

حضرت جنید بغدادیؒ ایک دن یمن کے شہر صنعا کے جنگلوں میں سے گزر رہےتھے۔ وہاں انہوں نے ایک بوڑھے جنگلی کتے کو دیکھا جس کے دانت گر چکے تھے۔ بے چارہ شکار کرنے سے معذور تھا۔ دوسروں کے کیے ہوئے بچے کھچے شکار پر گزارہ کرتا اور اکثر بھوکا رہتا تھا۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے اسے دیکھا تو آپ کو اس پر بڑا ترس آیا اور جو کھانا ساتھ تھا، آدھا اس کو کھلا دیا۔ اس کی نیکی کے ساتھ ساتھ آپ روتے جاتے اور فرماتے جاتے تھے: “اس وقت تو میں بظاہر اس کتے سے بہتر ہوں لیکن کسے معلوم ہے کہ کل میرا درجہ کیا ہوگا۔

اگر میں با ایمان رہا تو خدا کی عنایت اور رحم کا مستحق قرار پاؤں گا۔ بصورت دیگر یہ کتا مجھ سے بہتر حالت میں ہو گا کیونکہ اس کو دوزخ میں ہرگز نہیں ڈالا جائے گا۔” اللہ کے نیک بندوں نے عاجزی اختیار کرکے ہی اعلیٰ رتبہ پایا ہے۔ اس واقعے کا حاصل یہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات اسی صورت کہلانے کا حق دار ہے جب وہ عاجزی اختیار کرے اور یہی مقام انسانیت ہے۔ عاقبت اسی کی بخیر ہو گی جو آخری سانس تک عاجزی کے ساتھ راہِ راست پر چلتا رہے۔

احسان کی قوت
جناب شیخ سعدی علیہ رحمت اللہ علیہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے راستے میں ایک جوان کو دیکھا، اس کے پیچھے پیچھے اس کی بکری بھی بھاگتی آ رہی تھی ۔ شیخ سعدی نے کہا کہ یہ بکری جو تیرے پیچھے پیچھے آتی ہے، اس کی وجہ کیا یہ رسی ہے جس سے یہ بندھی ہوئی ہے؟ جوان نے اس بکری کے پٹے کو کھول دیا تو وہ ادھر ادھر دائیں بائیں دوڑنے لگی۔ لیکن اسی طرح راستے میں اس کے پیچھے آتی رہی کیونکہ بکری نے جوان کے ہاتھ سے سر سبز چارہ کھایا تھا۔ پھر جب وہ سیر اور کھیل کود سے واپس ہوا اور مجھے دیکھا تو بولا اے صاحب ، اس جانور کو یہ رسی میرے ساتھ لے کر نہیں چلتی ، بلکہ اس کی گردن میں میرے احسان کا پٹہ بندھا ہوا ہے۔ ہاتھی نے جو مہربانی اپنے فیل بان میں دیکھی ہے ،اس وجہ سے وہ مستی میں بھی اس پر حملہ نہیں کرتا۔ لہذا اے نیک مرد!برے لوگوں پر بھی نوازش اور مہربانی ہی کر ، کیونکہ ایک کتا بھی جس نے تیری روٹی کھائی ہے ،وہ تجھ سے وفا داری کرتا ہے۔

Pakistani labors prepare ‘Iftar’ food to break their fast

Men sit atop a bus as they prepare to break their fast during a Muslim holy month of Ramadan in Karachi, Pakistan
Men arrange food plates for passersby to break their fast during a Muslim holy month of Ramadan in Karachi, Pakistan.
A man arranges food plates for people to break fast at a mosque in Karachi, Pakistan.

علم کی اہمیت اور اسکی ضرورت قرآن و احادیث کی روشنی میں

٭ اللہ تعالیٰ جس شخص کی بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے ، اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے اوراس کی ہدایت اس کے دل میں ڈال دیتا ہے۔
٭ علماء،ا نبیاءکرام علیہم السلام کے وارث ہیں۔
٭ آسمانوں اورزمین کی ہر چیز عالم کے لیے بخشش طلب کرتی ہے۔
٭ بے شک علم شریف کی عزت کو بڑھاتا ہے اور غلام کو اس قدر رفعت عطا کرتا ہے کہ وہ بادشاہوں کے درجے پر پہنچ جاتا ہے۔
٭ کسی منافق میں دو خوبیاں نہیں پائی جاتیں ،راہِ راست پر ہونا اور دین کی سمجھ. 
٭ ایمان برہنہ تن ہے اس کا لباس تقویٰ ہے۔ اس کی زینت حیاء اوراس کا پھل علم ہے۔
٭ انسانوں میں درجہ نبوت کے زیادہ قریب علماء اورمجاہدین ہیں علماء رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات کی طرف لوگوں کی راہنمائی کرتے ہیں جب کہ مجاہدین رسولوں کی لائی ہوئی شریعت کے تحفظ کی خاطر اپنی تلواروں سے جہاد کرتے ہیں۔
٭ ایک قبیلے کی موت ایک عالم کی موت سے زیادہ آسان ہے۔
٭ قیامت کے دن علماء کے قلم کی سیاہی کو شہداء کے خون کے مقابلے میں وزن کیا جائے گا۔
٭ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف وحی ارسال فرمائی ، اے ابراہیم! بلاشبہ میں علیم ہوں اورہرصاحب علم والے کو پسند کرتا ہوں ۔
٭ عالم زمین میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا امین ہے۔
٭ میری امت کے دوطبقے ایسے ہیں اگر وہ صحیح ہوں تو تمام لوگ درست ہوتے ہیں اگر وہ بگڑ جائیں تو سب لوگ بگڑ جاتے ہیں ۔ ایک حکمرانوں کا طبقہ اوردوسرے علماء۔
٭ جب مجھ پر کوئی ایسا دن آئے جس میں میں ایسے علم کا اضافہ نہ کروں جو مجھے اللہ تبارک وتعالیٰ کے قریب کردے تو اس دن کے طلوع آفتاب سے مجھے کوئی برکت حاصل نہ ہوئی ۔
٭ عالم کی عابد پر فضیلت اس طرح ہے ،جس طرح چودہویں رات کا چاند تمام ستاروں سے افضل ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بندوں کو اُٹھائے گا ،پھر علماء کو اُٹھائے گا اور ارشاد ہو گا : اے گروہ علماء ! میں نے اپنا علم تمہیں جانتے ہوئے عطا کیا تھا اور یہ علم تمہیں اس لیے نہیں دیا تھا کہ میں تمہیں عذاب دوں ، بے شک میں نے تمہیں بخش دیا۔ 
  (احیاءالعلوم : امام محمد غزالیؒ)

اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب کلمات

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دو کلمے ایسے ہیں کہ جو ( ادائیگی کے لحاظ سے) زبان پر ہلکے ہیں لیکن میزان میں یعنی اجر وثواب کے لحاظ سے قیامت کے دن کی ترازو میں) بھاری ہوں گے۔ ( اور) رحمن ( یعنی اللہ تعالیٰ) کے ہاں بہت محبوب ہیں ( اور وہ کلمات یہ ہیں) سبحان اللہ العظیم، سبحان اللہ و بحمدہ۔ ( بخاری ومسلم)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے صبح کے وقت اور شام کے وقت سومرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کہا تو قیامت کے دن( اس حال میں) آئیگا کہ کوئی بھی اس سے افضل نہ ہوگا۔
 مگر یہ کہ جس نے اس کی مثل یا اس سے زیادہ کہا ہو گا۔ (مسلم)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ التبہ اگر میں سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر (ایک بار ) کہوں تو یہ مجھے ان سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔( مسلم)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں  کہ ( ایک دن) ہم رسول اللہﷺ کے پاس ( بیٹھے ہوئے) تھے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تم اس سے عاجز ہو کہ ہر دن ہزار نیکیاں کمائو حاضرین مجلس میں سے کسی  نے عرض کیا کہ کس طرح ہم میں کوئی شخص روزانہ ہزار نیکیاں کما سکتا ہے آپ ﷺنے فرمایا کہ سو مرتبہ اللہ کی تسبیح بیان کرے ( یعنی سبحان اللہ کہے) تو اس کے لئے ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کی ایک ہزار برائیاں مٹا دی جائیں گی۔ ( مسلم)

سوچ کر بولنے کی عادت ڈالیں

ایک حدیث شریف میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ انسان کو سب سے زیادہ جہنم میں اوندھے منہ ڈالنے والی چیز زبان ہےیعنی جہنم میں اوندھے منہ گرائے جانے کا سب سے بڑا سبب زبان ہے ۔ اس لیے جب بھی زبان کو استعمال کرو۔ استعمال کرنے سے پہلے ذرا سوچ لیا کرو کسی کے ذہن میں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو جب کوئی ایک جملہ بولنا ہو تو پہلے پانچ منٹ تک سوچے پھر زبان سے وہ جملہ نکالے تو اس صورت میں بہت وقت خرچ ہو جائے گا؟
بات دراصل یہ ہے کہ اگر شروع شروع میں انسان بات سوچ سوچ کر کرنے کی عادت ڈال لے تو پھر آہستہ آہستہ اس کا عادی ہو جاتا ہے اور پھر سوچنے میں دیر نہیں لگتی ۔ ایک لمحہ میں انسان فیصلہ کر لیتا ہے کہ یہ بات زبان سے نکالوں یا نہ نکالوں ۔ پھر اللہ تعالیٰ زبان کے اندر ہی ترازو پیدا فرما دیتے ہیں جس کے نتیجے میں زبان سے پھر صرف حق بات نکلتی ہے غلط اور ایسی بات زبان سے نہیں نکلتی جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہو اور دوسروں کو تکلیف پہنچانے والی ہو۔ بشرطیکہ یہ احساس پیدا ہو جائے کہ اس سرکاری مشین کو آداب کیساتھ استعمال کرنا ہے۔
تالیف : مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب : نورمحمد

امریکا میں اسلام تیسرا بڑا مذہب، مسلمان چوتھی بڑی آبادی

اسلام امریکا کا تیسرا بڑا مذہب بن گیا جبکہ مسلمان امریکا کی چوتھی بڑی آبادی ہے۔ سنسس بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق کل امریکی آبادی کا ایک فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے جو لگ بھگ 33 لاکھ بنتے ہیں تاہم مسلمان تنظیموں کے مطابق اصل تعداد 70 لاکھ سے بھی زائد ہیں، تو صرف نیویارک سٹی میں ہی 8 سے 10 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔  ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سٹی میں کل رجسٹرڈ مسلمان ووٹروں کی تعداد 8 لاکھ 24 ہزار ہے جو امریکی انتخابات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
فروری 2016 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق کل مسلم رجسٹرڈ ووٹرز کی 2 تہائی یعنی تقریبا 5 لاکھ 49 ہزار333 ووٹرزڈیموکریٹک پارٹی کو سپورٹ کرتے نظرآتے ہیں جبکہ 15 سے 18 فیصد یعنی تقریبا ایک لاکھ 48 ہزار320 ووٹرزرپبلکن جماعت کی حمایت کرتے ہیں جبکہ انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں سے متعلق متنازع بیانات کے بعد اس تعداد میں مزید کمی ہو سکتی ہے۔

یا رب ھمیں پلک جھپکنے کی مقدار کے مطابق بھی ھمارے نفس کے حوالے نہ کر

بــــسم الـلــہ الـــرحــمن الــرحــیم
مفہوم ارشــــاد نـــــــبوی صلی اللہ علیہ وسلم
اس حدیث کو پڑھ کر میرے رونگٹے
کھڑے ہو گئے!
ثوبان رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا
﴿لأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِى يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ بِيضًا فَيَجْعَلُهَا اللہُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَاءً مَنْثُورًا
میں اپنی اُمت میں سے یقینی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت والے دِن اِس حال میں آئیں گے کہ اُن کے ساتھ تہامہ پہاڑ کے برابر نیکیاں ہوں گی ،تو اللہ عزّ و جلّ ان نیکیوں کو (ہوا میں منتشر ہوجانے والا) غُبار بنا (کر غارت ) کردے گا،
تو ثوبان رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا :-
‘‘يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا جَلِّهِمْ لَنَا أَنْ لاَ نَكُونَ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لاَ نَعْلَمُ
اے اللہ کے رسول ، ہمیں اُن لوگوں کی نشانیاں بتائیے ،ہمارے لیے اُن لوگوں کا حال بیان فرمایے ، تا کہ ایسا نہ ہو کہ ہمیں انہیں جان نہ سکیں اور ان کے ساتھ ہوں جائیں
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا
أَمَا إِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ وَمِنْ جِلْدَتِكُمْ وَيَأْخُذُونَ مِنَ اللَّيْلِ كَمَا تَأْخُذُونَ وَلَكِنَّهُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللہِ انْتَهَكُوهَا
وہ لوگ تُم لوگوں کے (دینی) بھائی ہوں گے اور تُم لوگوں کی جِلد (ظاہری پہچان اِسلام ) میں سے ہوں گے ، اور رات کی عبادات میں سے اُسی طرح (حصہ) لیں گے جس طرح تم لوگ لیتے ہو (یعنی تُم لوگوں کی ہی طرح قیام اللیل کیا کریں گے) لیکن اُن کا معاملہ یہ ہوگا کہ جب وہ لوگ الله ﷻ کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں کو تنہائی میں پائیں گے تو اُنہیں اِستعمال کریں گے.
سُنن ابن ماجہ /حدیث/4386کتاب الزُھد/باب29، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
یا رب ھمیں پلک جھپکنے کی مقدار کے مطابق بھی ھمارے نفس کے حوالے نہ کر
اللَّهُمَّ رَحْمَتَكَ أَرْجُو فَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ، وَأَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْت
آمین

صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا ذوق عبادت

حضور اکرم(ﷺ) کی پاکیزہ، مبارک اور انسان ساز محبت نے سر زمین عر ب میں ایک روحانی انقلاب پیدا کر دیا۔ وہ خطہ زمینی جہاں بتوں کی پرستش ہوا کرتی تھی اور خدا کی یاد تک دلوں سے محو ہو گئی تھی۔ اس سر زمین کے باسی عرفان و عبادت کے پیکر بن گئے۔ انکی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کا چین یاد الہٰی سے وابستہ ہو گیا۔ انکے ہونٹ ذکر سے تر رہنے لگے اور انکے خیالات کا رخ ہمہ وقت رضاء الہی کی طرف ہو گیا۔ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں انکے اس ذوق و شوق اور وارفتگی کی خود شہادت دی ہے۔
٭ ’’ایسے لوگ جنکو کاروبار اور خرید و فرخت (کی مشغولیت بھی) خدا کی یاد سے غافل نہیں کرتی‘‘۔ (نور ۔5)
٭ (یہ وہ لوگ ہیں) جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (بھی) اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ (آل عمران۔ ۲۰۰)
٭ (یہ وہ لوگ ہیں) جنکے پہلو (رات کو) خواب گاہوں سے علیحدہ رہتے ہیں اور وہ خوف اور امید (کی ملی جلی کیفیت) کیساتھ اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں۔ (سجدہ ۔2)
٭ آپ انہیں دیکھیں کہ (وہ) رکوع میں جھکے ہوئے، سجدہ میں پڑے ہوئے خدا کے فضل اور (اسکی) رضاء کو تلاش کرتے ہیں۔ (فتح ۔4)
عرب کے وہ صحرا نشین جو بڑے سخت دل تھے، اور کہیں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ انکے دل سوز و گداز سے اس طرح معمور ہوگئے ہیں اور خشیت الہی نے انکے دلوں میں اسطرح جگہ بنالی ہے کہ
٭ وہ لوگ کہ جب (انکے سامنے) خدا کا نام لیا جائے تو انکے دل دہل جاتے ہیں۔ (حج ۔۵)
نبی کریم(ﷺ) کی صحبت صالحہ کا فیضان تھا کہ مکہ میں جہاں صحابہ کرام کیلئے کھل کر اپنے اعلان کا کرنا بھی دشوار تھا، وہاں بھی تنہائی اور خلوت ڈھنڈتے تھے، اور اپنے رب کے حضور میں سجدہ ریز ہو جاتے تھے بالعموم اپنی رات کی تنہائیوں کو اللہ کے ذکر سے آباد کر لیتے۔
٭ آپکا پروردگار جانتا ہے کہ آپ دو تہائی رات کے قریب اور آدھی رات اور ایک تہائی رات تک (نماز میں) کھڑے رہتے ہیں اور آپکے ساتھ (اہل ایمان کی) ایک جماعت بھی اٹھ کر نماز پڑھتی ہے۔ (مزمل ۔۲)
اہتمام صلوٰ ۃ کی وجہ سے صحابہ کرام طہارت کا اہتمام کرتے اپنے جسم اور لباس کو پاک صاف رکھتے، قرآن مجید نے انکے اس ذوق کی تحسین کرتے ہوئے یوں مدح فرمائی:
اس مسجد میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف رہیں اور اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (توبہ۔ ۱۳)

اذان

حضور اکرم ﷺ کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد آپکی اقتداء میں ادائیگی نماز کا سلسلہ شروع ہوا، نماز کے اوقات میں صحابہ کرام ازخود جمع ہوجاتے اور جماعت ہوجاتی۔ جب نمازیوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوگیا ہے تو اب ضرورت محسوس ہوئی کہ کوئی شعار ایسا ہونا چاہیے جس سے جماعت کا اعلان ہو جائے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ایک مجلس مشاورت منعقد کی گئی ایک تجویز یہ پیش ہوئی کہ نماز کے وقت ایک پرچم اونچا کرکے لہرایا جائے۔ سب لوگ اسے دیکھ کر مسجد میں پہنچ جائیں، ایک مشورہ یہ پیش ہوا کہ نماز سے پہلے بگل بجایا جائے لیکن حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا: یہ یہودیوں کا طریقہ ہے۔ ہمیں ان سے مشابہت نہیں کرنی چاہیے ۔ ایک صاحب نے تجویز دی کہ ناقوس پھونکا جائے۔ آپ نے فرمایا :یہ عیسائیوں کا طریقہ ہے، کسی نے رائے دی کہ ایک اونچے مقام پر آگ روشن کردی جائے۔ اس شعلوں کو دیکھ کر لوگ مطلع ہوجائینگے۔آپ نے اسے ’’شیوۂ مجوس‘‘ ہونے کی وجہ سے مسترد فرما دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ نماز کا وقت ہو تو ایک شخص بلند آواز سے اس کا اعلان کرے۔ آپکی اس تجویز پر صاد فرمایا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اوقاتِ نماز کا اعلان کیا کریں۔ اس طرح شروع میں الصلوٰۃ جامعۃ پکار دیا جاتا۔
حضور اقدس ﷺکے صحابی حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک شخص ہے جس نے دوسبز چادریں اوڑھی ہوئی ہیں اور ہاتھ میں ناقوس پکڑا ہوا ہے۔ حضرت عبداللہ نے اس سے کہا اے بندۂ خدا کیا یہ ناقوس فروخت کرو گے۔ اس نے پوچھا تم اسے لیکر کیا کرو گے؟ آپ نے کہا ہم اس کے ذریعے لوگوں کو دعوتِ نماز دیا کرینگے۔ اس نے کہا کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتائوں، انہوں نے کہا بڑی نوازش ہوگی۔ اس نے کہا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ کلمات سنائواور عرض کرو کہ لوگوں کو اس طرح نماز کی دعوت دیا کریں،اور کلمات اذانِ حضرت عبداللہ کوسنائے۔ حضرت عبداللہ بیدار ہوگئے، اور اسی وقت حضور کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوگئے۔ اور اپنا خواب سنایا۔ آپ نے خواب سماعت فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا۔ یہ سچا خواب ہے، انشاء اللہ۔ صبح صادق ہوئی تو حضور اکرم ﷺ نے حضرت عبد اللہ سے فرمایا کہ بلال کو ساتھ لے جائو اور انہیں اذان کے کلمات سناتے جائو، وہ انہیں بلند آواز سے کہتے جائینگے۔ حضرت عمرابن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی رات ایسا ہی خواب دیکھا تھا۔ جب مدینہ منورہ کی فضائوں میں اذانِ بلالی بلند ہوئی تو حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ ’’اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں نے بھی اسی طرح کاخواب دیکھا ہے۔‘‘

محرم الحرام کے روزے

محرم الحرام، چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، اس کی حرمت کا تقاضا
ہے کہ اللہ اور اُس کے پیارے رسولؐ کے احکامات کو مان کر آدمی محترم بنے، مخالفت کر کے مجرم نہ بنے، جہاں تک ہو سکے مسلمانوں کو ماہِ محرم کا خصوصی احترام کرنا چاہئے اور حتی الامکان اس میں گناہوں اور جنگ وجدال سے اجتناب کرنا چاہئے۔۔۔ اس مہینے کی ایک فضیلت یہ ہے کہ اسے رسول اللہؐ نے اللہ کا مہینہ کہا ہے اور اس ماہ کے روزوں کی اور خاص طورپر عاشوراء کے روزے کی احادیث میں بڑی فضیلت وارد ہے۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز (یعنی تہجد کی نماز) ہے۔ (رواہ مسلم)

سنن ابوداود اور سنن الدارمی میں نعمان بن سعد سیدنا علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ان سے دریافت کیا کہ رمضان کے بعد آپ مجھے کس ماہ کے روزے رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: مَیں نے ایک آدمی کے سوا کسی کو اس بارے میں سوال کرتے نہیں سُنا اس شخص کو مَیں نے رسول اللہؐ سے دریافت کرتے ہوئے سُنا اس حال میں کہ مَیں رسول اللہ ؐکے پاس بیٹھا ہوا تھا اُس نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ماہِ رمضان کے بعد آپ مجھے کس ماہ کے روزے رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ رسول اللہؐ نے فرمایا: اگر رمضان کے بعد روزے رکھنا چاہو تو محرم کے روزے رکھو، کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے۔۔۔ یہ تو اس ماہ کے عمومی روزوں کی فضیلت ہوئی، مگر خاص طور سے عاشوراء کے روزوں کی اور زیادہ فضیلت ہے ان سے ایک سال گزشتہ کے صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ سیدنا قتادہؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ عاشوراء کے روزوں کی وجہ سے وہ ایک سال گزشتہ کے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ (مسلم)

سیدنا ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں: رسول اللہؐ کو مَیں نے عاشوراء کے روزوں اور رمضان کے روزوں کے علاوہ فضیلت کے کسی دن کے روزے کا اتنا اہتمام کرتے نہیں دیکھا۔ (متفق علیہ)۔۔۔ آپ ؐ کے ان روزوں کے اہتمام کا حال یہ تھا کہ ہجرت سے قبل بھی آپ قریش کے ساتھ عاشوراء کے روزے رکھا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: عاشوراء کے دن کا روزہ قریش جاہلیت میں رکھتے تھے اور رسول اللہ ؐ بھی ہجرت سے قبل یہ روزہ رکھتے تھے پھر جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں بھی آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیا پھر جب رمضان کے روزے فرض کیے گئے تو آپ نے اس کا (حکم دینا اور تاکید کرنا) ترک کر دیا اور جو چاہتا یہ روزہ رکھتا اور جو چاہتا نہ رکھتا۔ (بخاری ومسلم)
علامہ ابن قیمؒ زاد المعاد میں فرماتے ہیں: بلاشبہ قریش اس دن کی تعظیم کرتے تھے اور اسی دن کعبہ کو غلاف پہناتے تھے اور اس دن روزہ رکھنا اس کی مکمل تعظیم کی وجہ سے تھا۔۔۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں: شاید قریش اس کے روزے کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیمؒ جیسے ماضی کے کسی نبی کی شریعت پر اعتماد کرتے تھے۔۔۔ بہرحال قریش یوم عاشوراء کی تعظیم کرتے تھے اور اس کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہؐ بھی ہجرت سے قبل اس کا روزہ رکھتے تھے پھر رسول اللہؐ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں یہود کو بھی دیکھا کہ عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں۔ ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ بڑا عظیم دن ہے۔ اس دن اللہ نے سیدنا موسیٰ ؑ اور ان کی قوم کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا اور حضرت موسیٰؑ نے شکرانہ کے طور پر اس دن کا روزہ رکھا اور ہم لوگ بھی اس کا روزہ رکھتے ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’تم لوگوں کی بہ نسبت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی متابعت کے زیادہ حق دار ہم لوگ ہیں‘‘۔۔۔ پھر آپؐ نے خود روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
بخاری کی بعض روایتوں میں ہے:(نَحْنُ نَصُوْمُہُ تَعْظِیْمًا) ہم اس کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں۔ مسند احمد میں سیدنا ابوہریرہؓکی روایت میں ہے: یہی وہ دن ہے، جس میں حضرت نوحؒ کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری تھی تو انہوں نے شکر کے طور پر روزہ رکھا۔ ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا نوح ؒ اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بھی اس دن روزہ رکھا اور قریش ویہود بھی اس کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ ؐ نے بھی اس کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا، پھر رسول اللہ ؐ نے اس کی مزید تاکید کی اور لوگوں کو برابر اس کا حکم دیتے اور اس پر اُبھارتے رہے حتیٰ کہ سیدہ ربیع بنت معوذؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے عاشوراء کی صبح انصار کی بستیوں میں یہ کہلا بھیجا کہ جو صبح سے روزہ سے ہو وہ اپنے روزہ کو مکمل کرے اور جو صبح سے روزہ سے نہ ہو وہ اس وقت سے باقی دن کا روزہ رکھے۔ اس کے بعد ہم سب لوگ اس کا روزہ رکھتے تھے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے۔ ہم ان کے لیے اون کے رنگین کھلونے بنا کر انہیں مسجد لے جاتی تھیں اور جب ان میں سے کوئی کھانے کے لیے رونے لگتا تو ہم اسے یہ کھلونے دے دیتیں یہاں تک کہ افطار کا وقت ہو جاتا۔ (البخاری ومسلم)
سیدنا جابر بن سمرہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: رسول اللہؐ ہمیں یوم عاشوراء کے روزوں کا تاکیدی حکم دیتے ہمیں اس کی ترغیب دیتے ہمارا حال چال معلوم کرتے اور نصیحت فرماتے۔ پھر جب رمضان کے روزے فرض کر دیئے گئے تو نہ آپؐ نے ہمیں اس کا پہلے کی طرح حکم دیا اور نہ منع ہی فرمایا۔ (مسلم)
ان حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے عاشوراء کا روزہ فرض تھا پھر رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس کی فرضیت منسوخ ہو گئی البتہ اس کا استحباب اور اس کی فضیلت برقرار رہی۔ یہی امام ابوحنیفہؓ امام احمدؒ (ایک روایت میں) امام ابن القیمؒ حافظ ابن حجرؒ اور امام مالکؒ وغیرہ کا مذہب ہے اور یہی راجح ہے۔ اس کے استحباب اور فضیلت کے باقی رہنے کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہؐ آخری عمر تک اس کا اہتمام فرماتے رہے۔ سیدہ حفصہؒ فرماتی ہیں: چار چیزیں رسول اللہ ؐ کبھی ترک نہیں فرماتے تھے عاشوراء کے روزے 2 عشرہ ذی الحجہ کے روزے 3 ہر مہینے کے تین دن (ایام بیض، یعنی چاند کی تیرھویں، چودھویں، پندرہویں) کے روزے 4 فجر سے پہلے کی دو رکعتیں۔ (رواہ النسائی واحمد)
سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے: جب رسول اللہؐ نے عاشوراء کے دن کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی رکھنے کا حکم دیا تو انہوں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ! یہ تو ایسا دن ہے جس کی تعظیم یہود ونصاریٰ کرتے ہیں؟ تو رسول اللہؐ نے فرمایا: اگر میں اگلے سال زندہ رہا تو نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا۔ (مسلم)
ایک اور روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا : عاشوراء کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو اور ایک دن اس سے قبل یا ایک دن اس کے بعد بھی روزہ رکھو۔ (مسلم احمد)
اسی واسطے بعض علماء نے کہا کہ عاشوراء کے روزوں کے تین درجے ہیں سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ نو دس اور گیارہ محرم کے روزے رکھے جائیں۔ اس کے بعد دوسرا درجہ یہ ہے کہ نو اور دس محرم کے روزے رکھے جائیں۔ تیسرا اور آخری درجہ یہ ہے کہ صرف دس محرم کا روزہ رکھا جائے۔ (زاد المعاد، فتح الباری)
 رانا شفیق پسروری