اسلام میں صبر کا اجر

انسان بنیادی طور پر عجلت پسند واقعہ ہوا ہے اور اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہداف کو جلد ازجلد حاصل کر لے‘ اسی طرح انسان خواہشات کا اسیر بھی ہے اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ بہت سے لوگ اس حوالے سے جائز اور ناجائز کی تمیز کرنے سے بھی قاصر ہو جاتے ہیں‘ اسی طرح یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان کسی پریشانی یا صدمے کے موقع پر بے قرار ہو جاتا ہے اور اس کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ صدمے اور بیقراری کی کیفیت سے جلد از جلد نکلا جائے اور پریشانی‘ تکلیف یا بیماری کی طوالت پر بالعموم بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ انسان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ صبر کا پھل انتہائی میٹھا ہوتا ہے اور صبر کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید انسان کے شامل حال ہو جاتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر صبر کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 153 میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو‘ مدد حاصل کرو صبر سے اور نماز سے بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ زندگی کے نشیب وفراز درحقیقت ہمارے قبضہ اختیار میں نہیں ‘ بلکہ زندگی میں آنے والی آسانیوں اور مشکلات کا علم اور اختیار درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کے پاس ہے؛ چنانچہ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات پر اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر راضی ہوتے ہوئے انسان کو صبر کے راستے کو اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 155 سے157 میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اور البتہ ضرور ہم آزمائیں گے‘ تمہیں کچھ خوف سے اور بھوک سے اور مالوں میں اور جانوروں میں کمی کر کے اور پھلوں میں (کمی کر کے) اور خوشخبری دے دیں‘ صبر کرنے والوں کو۔ وہ لوگ جب پہنچتی ہے ‘انہیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں ‘بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ وہی لوگ ہیں (کہ) ان پر عنایات ہیں‘ ان کے رب کی طرف سے اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘

اسی طرح قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ پیش آنے والی تکالیف پر صبر کرنے والے کی تکلیف کو اللہ تبارک و تعالیٰ فقط دور ہی نہیں فرماتے‘ بلکہ اس سے محبت بھی فرماتے ہیں ؛ چنانچہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 146 میں ارشاد ہوا: ” اور کتنے ہی نبی (ایسے گزرے ہیں کہ) جہاد کیا‘ ان کے ساتھ (مل کر) بہت سے اللہ والوں نے پس نہ (تو) انہوں نے ہمت ہاری اور (اُس) پر جو مصائب درپیش ہوئے انہیں اللہ کے راستے میں اور نہ انہوں نے کمزوری دکھائی اور نہ وہ (کافروں سے) دبے اور اللہ محبت کرتا ہے صبر کرنے والوں سے۔‘‘ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو کی جانے والی نصیحتوں کا بڑے خوبصورت انداز میں ذکر کیا ہے۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے جہاں پر اپنے بیٹے کو توحید باری تعالیٰ‘ والدین کی اطاعت ‘ نماز کے قیام‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا‘ وہیں پر اپنے بیٹے کو صبر کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ لقمان کی آیت نمبر17 میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اور صبر کر اس (تکلیف) پر جو تجھے پہنچے بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔‘‘ تکالیف پر کیے جانے والے صبر کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں خواہشات پر کیے جانے والے صبر کے فوائد اوراس موقع پر کی جانے و الی بے صبری کی بھی مذمت کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت 249 میں لشکر طالوت کے واقعے کو نہایت خوبصورت انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں: ”پھر جب نکلا طالوت (اپنے) لشکروں کے ساتھ اس نے کہا : بے شک اللہ تمہیں آزمانے والا ہے ایک نہر سے پس جو پی لے گا اس سے تو نہیں ہے وہ مجھ سے (میرا ساتھی) اور جو نہ چکھے گا اسے پس بے شک وہ مجھ سے (میرا ساتھی ) ہے‘ مگر جو بھر لے ایک چلو اپنے ہاتھ سے پھر انہوں نے پی لیا اس سے سوائے تھوڑے (لوگوں) کے ان میں سے پھر جب اسے پار کر لیا‘ اس نے اور ان لوگوں نے جو ایمان لائے اس کے ساتھ وہ کہنے لگے : کوئی طاقت نہیں ہمیں آج جالوت اور اس کے لشکروں سے (لڑنے کی) کہا ان لوگوں نے جو یقین رکھتے تھے کہ بے شک وہ اللہ سے ملنے والے ہیں بہت سے چھوٹے گروہ غالب آ گئے بڑے گروہ پر اللہ کے حکم سے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

قرآن مجید کے ساتھ ساتھ کتب احادیث میں بھی صبر کی اہمیت کو نہایت احسن انداز میں اجا گر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:۔ 1۔ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے بحرین میں کچھ قطعات اراضی بطور جاگیر ( انصار کو ) دینے کا ارادہ کیا تو انصار نے عرض کیا کہ ہم جب لیں گے کہ آپ ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اسی طرح کے قطعات عنایت فرمائیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد ( دوسرے لوگوں کو ) تم پر ترجیح دی جایا کرے گی تو اس وقت تم صبر کرنا‘ یہاں تک کہ ہم سے ( آخرت میں آ کر ) ملاقات کرو۔ 2۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو آپﷺ نے انہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور آپ ﷺ نے پھر دیا۔ یہاں تک کہ جو مال آپ ﷺ کے پاس تھا۔ اب وہ ختم ہو گیا‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس جو مال و دولت ہو تو میں اسے بچا کر نہیں رکھوں گا‘ مگر جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے سوال کرنے سے محفوظ ہی رکھتا ہے۔

اور جو شخص بے نیازی برتتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بے نیاز بنا دیتا ہے اور جو شخص اپنے اوپر زور ڈال کر بھی صبر کرتا ہے‘ تو اللہ تعالیٰ بھی اسے صبر و استقلال دے دیتا ہے۔ اور کسی کو بھی صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے زیادہ بے پایاں خیر نہیں ملی۔ ( صبر تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے ) ۔ بعض لوگ مصائب پر بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے واویلا کرنا شروع کر دیتے ہیں‘ انہیں درج ذیل حدیث سے عبرت حاصل کرنی چاہیے:۔ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کا گزر ایک عورت پر ہوا‘ جو قبر پر بیٹھی رو رہی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ وہ بولی :جاؤ جی پرے ہٹو۔ یہ مصیبت تم پر پڑی ہوتی تو پتہ چلتا۔ وہ آپ ﷺ کو پہچان نہ سکی تھی‘ پھر جب لوگوں نے اسے بتایا کہ یہ نبی کریم ﷺ تھے‘ تو اب وہ ( گھبرا کر ) نبی کریم ﷺ کے دروازہ پر پہنچی۔ وہاں اسے کوئی دربان نہ ملا‘ پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو پہچان نہ سکی تھی۔ ( معاف فرمائیے ) تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ صبر تو جب صدمہ شروع ہو‘ اس وقت کرنا چاہیے ۔

انسانی زندگی میں آنے والی ابتلاؤں میں سے جنگ بھی ایک بڑی مصیبت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جنگ کے دوران بھی صبر کی تلقین کی ہے۔ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:۔ 1۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : ”دشمن سے لڑنے بھڑنے کی تمنا نہ کرو ‘ ہاں! اگر جنگ شروع ہو جائے تو پھر صبر سے کام لو‘‘۔ 2۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے صحابہ ؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”لوگو! دشمن کے ساتھ جنگ کی خواہش اور تمنا دل میں نہ رکھا کرو‘ بلکہ اللہ تعالیٰ سے امن و عافیت کی دعا کیا کرو؛ البتہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو ہی جائے ‘ تو پھر صبر و استقامت کا ثبوت دو۔ یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے‘‘ اس کے بعد آپ ﷺ نے یوں دعا کی: ”اے اللہ! کتاب کے نازل کرنے والے‘ بادل بھیجنے والے‘ احزاب ( دشمن کے دستوں ) کو شکست دینے والے‘ انہیں شکست دے اور ان کے مقابلے میں ہماری مدد کر‘‘۔ 3۔ صحیح بخاری میں انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ام الربیع بنت برأ رضی اللہ عنہا جو حارثہ بن سراقہ ؓ کی والدہ تھیں ‘ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: اے اللہ کے نبیؐ! حارثہ کے بارے میں بھی آپ مجھے کچھ بتائیں۔

حارثہ ؓ بدر کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے ‘ انہیں نامعلوم سمت سے ایک تیر آ کر لگا تھا کہ اگر وہ جنت میں ہے تو صبر کر لوں اور اگر کہیں اور ہے تو اس کے لیے روؤں دھوؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا :اے ام حارثہ! جنت کے بہت سے درجے ہیں اور تمہارے بیٹے کو فردوس اعلیٰ میں جگہ ملی ہے‘‘۔ مندرجہ بالا احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو کسی بھی موقع پر صبر کے دامن کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے اور مقابلہ چاہیے لشکر کفار سے ہو یا مسئلہ کسی عزیز کی جدائی کا ہو ‘ ہر حالت میں صبر کو اختیار کرنا چاہیے اور صبر کے بارے میں اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ صبر وہ ہے جو صدمے کی پہلی چوٹ کے موقع پر کیا جائے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں زندگی میں پیش آنے والے مشکلات پر صبر کرنے کی توفیق دے ۔ آمین

علامہ ابتسام الہٰی ظہیر

تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا

اللہ تعالیٰ کو اپنی پیاری مخلوق حضرت انسان سے بہت محبت ہے، چناں چہ ازراہ محبت فرماتے ہیں : ’’ تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔‘‘ (سورۃ البقرۃ )
امام ثعلبیؒ نیشاپور کے رہنے والے تھے آپ کو قرآن کریم سے بے پناہ محبت تھی اس لیے علم قرآت، علم تفسیر میں بے پناہ مہارت تھی۔ امام ثعلبیؒ نے قصص الانبیاء، عرائس المجالس اور الکشف و البیان عن تفسیر القرآن جیسی شہرہ آفاق تصانیف لکھی ہیں۔ آپ کی تفسیر سے اس آیت سے متعلقہ چند اقوال ملاحظہ فرمائیں :

٭ تم مجھے یاد کرو اطاعت کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا مدد و نصرت کے ساتھ۔
٭ تم مجھے یاد کرو بندگی کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا مغفرت کے ساتھ۔
٭تم مجھے یاد کرو اطاعت کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا ثواب کے ساتھ۔
٭تم مجھے یاد کرو یعنی میرا شُکر ادا کرنے کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا زیادہ عطا کرنے کے ساتھ۔
٭تم مجھے یاد کرو توحید اور ایمان کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا جنت میں بلند درجات کے ساتھ۔
٭تم مجھے یاد کرو حمد اور ثناء کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا جزا کے ساتھ۔
٭تم مجھے یاد کرو دعا کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا عطا کے ساتھ۔
٭ تم مجھے یاد کرو مانگنے کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا نوازنے کے ساتھ۔
٭تم مجھے یاد کرو ندامت کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا کرم کے ساتھ۔
٭تم مجھے یاد کرو معافی مانگنے کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا بخشش کے ساتھ۔

٭ تم مجھے یاد کرو اخلاص کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا نجات کے ساتھ۔
٭ تم مجھے یاد کرو دل کے ساتھ، تمہیں یاد رکھوں گا تکالیف دور کر نے کے ساتھ۔
٭ تم مجھے یاد کرو بغیر نسیان کے، میں تمہیں یاد رکھوں گا امان کے ساتھ۔
٭ تم مجھے یاد کرو توبہ و استغفار کے وقت، میں تمہیں یاد رکھوں گا رحمت اور بخش دینے ساتھ۔
٭ تم مجھے یاد کرو اسلامی احکامات پر عمل کرنے کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا اکرام یعنی عزت دینے کے ساتھ۔
٭ تم مجھے یاد کرو گناہوں کے اعتراف کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا گناہوں کے مٹانے کے ساتھ۔
٭ تم مجھے یاد کرو نرمی کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا عفو و درگزر کے ساتھ۔
٭ تم مجھے یاد کرو میری عظمت کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا تمہیں عزتوں سے نوازنے کے ساتھ۔
٭ تم مجھے یاد کرو میری کبریائی کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا پاکیزگی کے ساتھ۔
٭ تم مجھے یاد کرو بڑائی کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا مزید اجر عطا کرنے کے ساتھ۔
٭ تم مجھے یاد کرو مناجات کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا نجات کے ساتھ۔
٭ تم مجھے یاد کرو جفا کے چھوڑنے کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا وفا کے ساتھ۔
٭ تم مجھے یاد کرو محبت اور شوق کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا اپنی قربت اور وصل کے ساتھ۔
٭ تم مجھے یاد کرو میرے احکامات پر عمل کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا گناہوں سے معافی عطا کرنے کے ساتھ۔
٭ تم مجھے یاد کرو تسلیم و رضا کے ساتھ، میں تمہیں یاد رکھوں گا امتحانات میں کامیابیاں نصیب کرنے کے ساتھ۔
٭ تم مجھے یاد کرو صاف نیت سے، میں تمہیں یاد رکھوں گا خالص نیکی کے اجر کے وقت۔
٭ تم مجھے عالم فنا میں یاد کرو، میں تمہیں عالم بقا میں بھی یاد رکھوں گا۔
٭ تم مجھے یاد کرو فقر کے وقت، میں تمہیں یاد رکھوں گا خوش حالی کے وقت۔
٭ تم مجھے یاد کرو زمین کے اوپر، میں تمہیں یاد رکھوں گا زمین کے اندر یعنی قبر میں۔
٭ تم مجھے یاد کرو تنہائی میں اور لوگوں کے سامنے، میں تمہیں یاد رکھوں گا بلندیوں میں ملائکہ کے سامنے۔
٭ تم مجھے یاد کرو نعمت ملنے پر اور پرسکون حالات میں، تمہیں میں یاد رکھوں گا سختی اور امتحان کے وقت۔
٭ تم مجھے یاد کرو جہاں تم ہو، میں تمہیں یاد رکھوں گا جہاں میں ہوں گا۔

ہم اللہ کو یاد کریں مخلوق اور مملوک ہونے کے ناتے ہمارا فرض بنتا ہے اور اللہ بھی ہمیں یاد فرمائیں۔ خالق و مالک ہونے کے باوجود یہ اس کا محض فضل، کرم، لطف اور احسان ہے۔ یہ دلیل محبت ہے اگر انسان اس کو عقل کی گہرائیوں سے جان لے اور دل کی گہرائیوں سے مان لے تو محبت الٰہی اس میں رچ بس جائے گی اور اللہ کی نگاہ میں اس کا شمار اولیاء اللہ میں ہونے لگے۔ ذات باری تعالیٰ کی محبت ، معرفت اور حقیقت جس دل میں سما جائے اس کی نگاہ میں دنیا کی محبتیں اور حقیقتیں معدوم ہو جاتی ہیں۔

وہ ہر وقت وصل حبیب کی تمنا میں رہتا ہے اگر اس کی زبان کسی وجہ سے تھوڑی دیر کے لیے خاموش بھی ہوجائے تو اس کا دل مسلسل اللہ کی یاد میں رہتا ہے۔ اس دنیا میں بہت سے خوش نصیب انسان ایسے ہیں جنہیں اللہ کی محبت، معرفت خوش نودی اور رضا حاصل ہوئی ہے۔ اللہ ہمارا شمار بھی انہی لوگوں میں فرما دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنا ذکر کرنے کی اور اس کی تمام کیفیات کو حاصل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور اپنے ذکر پر جو انعامات و اعزازات کا وعدہ فرمایا ہے وہ سب کچھ حاصل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

آمین

مولانا محمد الیاس گھمن

دوران وضو 80 فیصد پانی بچانے والے نل کی تیاری

وضو کے دوران غیر ضروری پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کےلیے خاص قسم کا نل تیار کیا جا رہا ہے جومخصوص مقدار میں پانی فراہم کرے گا۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لوگ وضو کے دوران ضرورت سے زیادہ پانی کا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ لوگ نل کھول کر دوران وضو میں باتیں کرنے لگتے ہیں، فون کالز کرتے ہیں، موزے اتارنے میں وقت لگاتے ہیں یا پھر دیر تک وضو مکمل کرتے ہیں کہ جو پانی کے ضیاع کا سبب بنتا ہے اور خاصی مقدار میں پانی بغیر استعمال ہوئے نالیوں میں بہہ جاتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق مساجد اور گھروں میں لگے عام نل (ٹونٹی) میں ایک منٹ کے دوران 6 لیٹر سے زائد پانی نکلتا ہے تاہم اب ایک ایسا نل تیار کیا جا رہا ہے کہ جو ایک منٹ میں ڈیڑھ لیٹر سے بھی کم پانی فراہم کرے گا۔ اس طرح وضو کے دوران 80 فیصد تک پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے گا۔ نل تیار کرنے والی کمپنی کے حکام کا کہنا ہے کہ ایک شخص سال بھرمیں وضو کے دوران کم و بیش 35 ہزار لیٹر پانی استعمال کرتا ہے لیکن جدید نلوں کی مدد سے اس شرح کو کم کر کے 7650 لیٹر تک لایا جا سکتا ہے۔ یہ خاص قسم کے نل ابتدائی طور پر دبئی میں تیار کیے جا رہے ہیں اور پہلے مرحلے میں شہر بھر کی مساجد میں انہیں نصب کیا جائے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شوقِ نماز

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت اور پُرسوز نماز اور کس کی ہو سکتی ہے۔ کون ہے جو آپ ﷺ سے زیادہ اللہ کی معرفت کا جو یاں ہو اور آپﷺ سے زیادہ نماز کی روحانی اسرار اور معنویت سے واقف ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ تو اس کیفیت کی اس طرح عکاسی فرماتی ہیں کہ نماز کا وقت شروع ہو جاتا تو یوں محسوس ہوتا کہ آپ ﷺ ہمیں پہچانتے ہی نہیں ہیں۔ کبھی کبھی آپ پر نماز کے درمیان رقت طاری ہو جاتی، چشم مبارک سے موتیوں کی لڑی بہنے لگتی، ایک صحابی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی منظر کشی کچھ یوں کی: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشم ھائے مبارک سے آنسو جاری ہیں روتے روتے ہچکیاں بندھ گئی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا کہ گویا کوئی چکی چل رہی ہے یا کوئی ہنڈیا ابل رہی ہے۔ (ترمذی)

رات کی خلوتوں میں آپ ﷺ جس سوز و گداز اور آہ و بکا کے ساتھ اللہ کے حضور میں حاضر ہوتے اور کس انہماک سے قیام فرماتے اس کا ادراک سورۃ مزمل کی تلاوت سے ہو سکتا ہے۔

کس بلا کی وہ ریاضت تھی کہ خود رب نے کہا
میرے محبوب توکیوں رات کو اکثر جاگے

’’رات کی نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر عجیب ذوق و شوق کا عالم طاری ہوتا تھا، قرآن پڑھتے چلے جاتے، جب خدا کی عظمت کبریائی کا ذکر آتا سبحان اللہ کہتے، عذاب کا ذکر آتا تو پناہ مانگتے۔ جب رحم و کرم کی آیتیں تو دعاء کرتے۔ (مسند احمد بن حنبل)

آپ ﷺ نے فرمایا: کہ (رات کی نفل نماز) نماز دو دو رکعت کر کے ہے، اور ہر دوسری رکعت میں تشہد ہے اور تضرع وزاری ہے، خشوع و خضوع ہے، عاجزی اور مسکنت ہے اور ہاتھ اٹھا کر اے رب کہنا ہے،جس نے ایسا نہ کہا تو اس کی نماز ناقص رہی ۔ (ابودائود)‘‘

آپ ﷺ خود بھی نماز کے جملہ آداب بجا لاتے اور دوسروں کو ان کی تعلیم فرماتے۔ ایک بار کسی شخص نے مسجد نبوی میں آکر نہایت عجلت اور تیزی میں نماز پڑھی آپ ﷺ ملاحظہ فرما رہے رہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے شخص اپنی نماز پھر پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اس نے دوبارہ اسی طرح نماز ادا کی، آپ ﷺ نے پھر اسی طرح ارشاد فرمایا۔ جب تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا تو اس نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ﷺ میں کس طرح نمازادا کروں۔ ارشاد ہوا: اس طرح کھڑے ہو، اس طرح قرأت کرو، اس طرح اطمینان اور سکون کے ساتھ رکوع اور سجدہ کرو۔ (بخاری)

آپ ﷺ نے ارشا فرمایا : ’’جب تم میں سے کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو تو وہ خدا کی طرف پوری طرح متوجہ رہے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہو جائے اور نمازمیں ادھر ادھر نہ دیکھو کیونکہ جب تم نماز میں ہو خدا سے باتیں کر رہے ہو۔ (طبرانی)

فضیلت صلوٰة اور احادیث

جس طرح قرآن مجید میں نماز کا کثرت سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس طرح احادیث مبارکہ کا ذخیرہ نماز کی فضیلت، اہمیت اور اس کے متعلقہ مسائل کے ذکر سے معمور ہے۔ حدیثِ پاک کے کسی بھی مجموعے کا مطالعہ کیجئے کتاب الصلوٰة، ابواب الصلوٰة کے زیر عنوان نماز ہی کا ذکر ہے۔ احادیث مبارکہ میں نماز ہی کو مرکزِ عبادات کا درجہ حاصل ہے۔

٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”قیامت کے روز لوگوں سے ان کے اعمال میں سے سب سے اوّل حساب نماز کا لیا جائے گا۔ (سنن ابوداﺅد) یہی حدیث مبارکہ الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ جامع الترمذی میں بھی موجود ہے جبکہ سنن نسائی میں اس میں یہ الفاظ بھی شامل ہیں۔

٭سو اگر نماز کا معاملہ درست ٹھہرا تو وہ بندہ فلاح و نجات پا گیا۔ اور یہی معاملہ بگڑ گیا تو وہ نامراد اور خسارہ پانے والا ہوا۔ (سنن نسائی)

امتحان کی پہلی منزل میں کامیابی نصیب ہو جائے تو یہ اگلی منزلوں میں بھی نجات کی نوید ثابت ہو گی۔ اور اگر خدانخواستہ پہلے مرحلے ہی میں لغزش سامنے آ جائے تو اس کے اثرات آئندہ کے لیے بھی بڑے ضرر رساں اور مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔

٭حضرت علی کر م اللہ وجہہ فرماتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال فرماتے ہوئے جو آخری کلام فرمایا وہ تھا۔ الصلوٰة، الصلوٰة اور یہ کہ تم اپنے غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ (سنن ابی داﺅد)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک فریضہء صلوٰة کی کتنی اہمیت ہے کہ آپ ﷺ نے دنیا سے جاتے ہوئے بھی اس کی تاکید بلکہ تاکید بالائے تاکید کو انتہائی ضروری سمجھا ۔ تعلق بااللہ کی اس استواری کے ساتھ آپ ﷺ  نے اس وقت معاشرے کے سب سے کمزور اور زیردست طبقے یعنی ”غلاموں“ کی خیر خواہی کا پیغام بھی ارشاد فرمایا ۔ یہ دین اسلام کی جامعیت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ جہاں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو اہمیت حاصل ہے اور توازن اور اعتدال کا پیغام ہر جگہ نمایاں نظر آتا ہے۔

٭حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بڑے انہماک اور استواری سے) نماز پڑھتے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے دونوں قدم زخمی ہو جاتے۔آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ آپ یہ کچھ کر رہے ہیں حالانکہ آپ کے لیے بخشش ہی کہ آپ پہلے بھی گناہوں سے محفوظ رہے ہیںاور آئندہ بھی رہیںگے۔ آپ نے ارشاد فرمایا:۔ ”کیا میں (اپنے رب تعالیٰ کا ) شکر گزار بندہ نہ بنوں“۔ (بخاری)

٭حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نمازدین کا ستون ہے“۔ (شعب الایمان) ستون پر ہی کوئی عمارت استوار ہوتی ہے، اور دین کی عمارت کا مرکزی ستون نماز ہے۔ یہ حدیث ہمیں اس امر کا احساس دلاتی ہے کہ نماز محض ذاتی مسئلہ یا انفرادی عمل نہیں ہے بلکہ اسلامی معاشرے کے حقیقی قیام اور بقا کے لیے اس فریضہ صلوٰة کی ادائیگی بہت ضروری ہے اور یہ اس کا نشان امتیاز ہے۔

نماز آئینہ ہے

آپ نے کبھی آئینہ دیکھا ہے؟ وہ آپ کو آپ کی شکل دِکھاتا ہے، کپڑے دکھاتا ہے،
بتاتا ہے کہ آپ کتنے خوبصورت لگ رہے ہیں اور اگر کوئی داغ دھبہ کہیں لگا ہوا ہے تو وہ بھی۔ اب اگر آپ کے بال گردآلود ہیں، چہرے پر سیاہی ملی ہوئی ہے، کپڑے شکن آلود ہیں، جسم زخمی ہے، کانوں سے خون رِس رہا ہے، کالے لمبے دانت باہر نکلے ہوئے ہیں، آنکھیں لال و سیاہ ہو رہی ہیں تو آئینہ آپ کو یہ سب کچھ بھی دکھائے گا اور یقین جانیئے، اِس میں آئینے کا کوئی قصور نہیں۔ آپ جتنے چاہیں آئینے تبدیل کر لیں۔ صورتِ حال ویسی کی ویسی ہی رہے گی۔ اسی لئے ہم سب صبح نہا دھو کر تیار ہو کر، اچھے کپڑے پہن کر آئینہ دیکھنے کے عادی ہیں کہ سب کچھ اچھا اچھا ہی نظر آئے۔

نماز بھی ایک آئینہ ہی ہے باطن کا، آپ وضو کر کے دن میں پانچ بار اِس کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں، اور یہ آپ کو آپ کا باطن دِکھا دیتی ہے۔ اگر آپ کو نماز میں کوفت ہوتی ہے، دماغ منتشر رہتا ہے، گھبراہٹ ہوتی ہے، وحشت ہوتی ہے تو سمجھ جائیں کہ باطن کی حالت کیا ہے، اور یقین جانیئے کہ اِس میں نماز کا کوئی قصور نہیں ہے۔ جائے نماز بدل لینے سے، غسل کر لینے سے، مولوی صاحب یا مسجد تبدیل کرلینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اب نماز جھوٹ تھوڑا ہی بولتی ہے، جیسے پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے بالکل ایسے ہی گناہ گناہ کو اور نیکی نیکی کو کھینچ لیتی ہے۔ آپ ایک نماز پڑھتے ہیں تو دوسری کی توفیق مل جاتی ہے اور ایک چھوڑ دیں تو اگلی چھوڑنی بھی آسان ہو جاتی ہے۔

نماز دن میں اعراب (punctuation marks) کی طرح آپ کو سہولت فراہم کرتی ہے کہ آپ اپنے 24 گھنٹوں کا پوسٹ مارٹم کر سکیں۔ نماز روزمرہ زندگی میں اللہ کی حضوری کی مقدار جانچنے کا ایک لٹِمس ٹیسٹ ہے۔ صبح کی نماز کا آئینہ آپ کو دکھاتا ہے کہ رات کیسی گزری۔ ہم ایسے گئے گزرے کہ رات کی سیاہی نہ دیکھنے کے لئے آئینے کے سامنے ہی نہیں جاتے اور سمجھتے ہیں کہ کوئی داغ کوئی دھبّہ ہی نہیں ہے۔ ظہر کی نماز کا آئینہ دکھاتا ہے کہ نوکری اور بزنس کے دوران احکاماتِ الہٰی کا کتنا خیال رکھا، عصر کی نماز کا آئینہ دن کہاں اور کیسے گزرا کا احوال بتاتا ہے، مغرب کا آئینہ خاندان اور نفس پر کی جانے والی محنت کا عکس دکھاتا ہے اور عشاء! کیا کہنے عشاء کے، آئینے میں عاشق کو اِس کا چہرہ دکھاتی ہے کہ محبت نور بن کر چہرے پر چمکے۔

آج میں نے کتنے پراڈکٹ بیچے، کتنے لوگوں سے میٹننگز کیں، بینک کے حساب سے لے کر ٹیکسوں کے گوشوارے تک، اور رات دیکھی جانے والی فلم سے لے کر موبائل فون کی پُر تکلف گفتگو تک، یہ سب کچھ ہی تو دورانِ نماز یاد آتا ہے۔ آئینے میں ان کو دیکھ کر عبرت پکڑنی چاہئیے۔ ہر وہ چیز جو آپ کی نماز کے حُسن کو خراب کر دے، حضوری کی لذت چھین لے، یقین جانیئے! اِس قابل ہی نہیں کہ اس کا ذکر کیا جائے۔ بات چل نکلی ہے، عشق کی تو سمجھ لینا چاہئیے کہ رتبے میں عاشق و معشوق کا کوئی موازنہ نہیں۔ عاشق تو معشوق کی صفات سے عشق کرتا ہے، یہ تو معشوق ہے جو عاشق کی ذات سے عشق کرتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عاشق کو عشق کی سچائی صفات سے گزار کر ذات تک لے جائے اور ایک مقام وہ آئے کہ معشوق کی صفات عاشق میں جلوہ گر ہوں۔

آپ کو تو محبوب سے عشق اِس کی مسکراہٹ کی ملاحت، رخسار کی صباحت، قد کی آراستگی، گفتگو کی مٹھاس، غمزوں کا ناز و انداز، چاہ ذقن، پُر شکن گیسو، خمدار ابرو اور پُرشکوہ جوانی دیکھ کر ہوا۔ اِس نے کیا دیکھا آپ میں؟ یہ ہے اصل سوال۔ بالکل اسی طرح یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ وہ آپ کو توفیق دے کہ آپ اِس کے سامنے سجدہ کرسکیں۔ نماز چھٹ جائے تو سوچنا ہی چاہئیے کہ زندگی میں ایسا کیا کیا کہ یہ توفیق بھی چِھن گئی؟ نماز میں کم از کم ایک بار اللہ کے سامنے حاضری کا خیال فرض ہے۔ اب اگر نماز میں بزنس و جاب کے مسائل ہی نظر آتے رہیں تو اپنے آپ پر بڑی محنت و توجہ کی ضرورت ہے، اور نماز کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آدمی جھوٹ نہیں بول پاتا۔ سوچتا ہی ہے کہ کیا کر رہا ہے، آپ جب ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ پر پہنچتے ہیں کہ اے اللہ! تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں تو دل کچوکے لگاتا ہے۔ روک دیتا ہے، اور ایک اور آیت سناتا ہے کہ ’’لم یقولون ما لا تفعلون‘‘ تم ایسی باتیں کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں۔ اور آدمی شش و پنج میں کھڑا وہ جاتا ہے کہ سورہِ فاتحہ پوری کیسے کرے؟ 
آئیے، نماز کے باطنی آئینے پر بھی توجہ کریں کہ کاش ہماری ظاہری خوبصورتی کا عکس باطن تک بھی پہنچے یا باطن اتنا منور ہوجائے کہ ظاہر بھی دُھل جائے۔
اللہ ہمیں نمازوں میں کھڑا ہونے کا شرف بخشیں۔
آمین!
ذیشان الحسن عثمانی

نماز کمر درد سے بچاؤ میں مددگار

روزانہ پانچ وقت کی نماز اسلام میں فرض ہے مگر یہ صحت کے لیے بھی انتہائی فائدہ مند ہے۔ یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی، امریکا کی مینیسوٹا یونیورسٹی اور پین اسٹیٹ یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق کے دوان اسلام، عیسائیت اور یہودیت کی نماز یا عبادت کے طریقہ کار اور جسمانی صحت کے فوائد کا تقابلی جائزہ لیا گیا۔ تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ اگر پانچ وقت کی نماز کو عادت بنا لیا جائے اور درست انداز سے ادا کی جائے گی تو یہ کمردرد کے مسائل سے نجات دلانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
تحقیق کے مطابق نماز کی مختلف چیزوں کی ادائیگی کے دوران کمر کے زاویوں میں تبدیلی سے کمر درد میں نمایاں کمی آتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ نماز کے دوران جسم کی حرکات یوگا یا فزیکل تھراپی سے ملتی جلتی ہیں جو کہ کمر کے درد کے علاج کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مختلف طبی رپورٹس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ نماز اور جسمانی طور پر صحت مند طرز زندگی کو برقرار رکھنے میں تعلق موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نماز جسمانی تناﺅ اور بے چینی کا خاتمہ کرتی ہے۔ تحقیق کے دوران مختلف تجربات سے معلوم ہوا کہ دوران نماز رکوع اور سجدے کی حالت میں کمر کا زاویہ ایسا ہوتا ہے جو کمر درد میں کمی لانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ تاہم محققین نے بتایا کہ کمردرد میں کمی اسی وقت ممکن ہے جب اسے بالکل درست انداز سے ادا کیا جائے۔ یہ تحقیق جریدے انٹرنیشنل جرنل آف انڈسٹریل اینڈ سسٹمز انجنیئرنگ میں شائع ہوئی۔

اللہ کی مدد کیسے حاصل ہو گی ؟

آج ہم طرح طرح کی پریشانیوں میں گرفتار ہیں۔ نجی پریشانی،گھریلوپریشانی، سماجی پریشانی، معاشی پریشانی، قدرتی پریشانی ۔ اس قسم کی سیکڑوں دیناوی پریشانیوں کے شکار ہیں جیسے لگتا ہے زندگی پریشانیوں کا مجموعہ ہے اورہم اللہ کی طرف سے خاص مہربانی اور نصرت وامداد سے محروم ہو گئے ہیں۔ دعائیں کرتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتیں ، امداد طلب کرتے ہیں مگر امداد نہیں آتی ، آواز لگاتے ہیں مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں ملتا۔ آخر اس کے کیا وجوہات ہیں اور کن اسباب کی وجہ سے ہمارا یہ براحال ہے ؟
اسلام ہی وہ دین ہے جس میں ساری پریشانیوں، مشکلوں، بیماریوں، مصیبتوں، دکھوں، غموں، دقتوں اور نقمتوں کا حل موجود ہے ۔ اسلام کے سایہ تلے زندگی گزارنے سے غربت دور ہو سکتی ہے ، بیماری کا علاج ہو سکتا ہے، پریشانی کا حل ہوسکتا ہے، غموں کا اختتام ہو سکتا ہے، دعائیں قبول ہو سکتی ہیں، مراد پوری ہو سکتی ہے، قسمت سنور سکتی ہے ، بگڑی بن سکتی ہے ۔ ہماری پریشانیوں بتلاتی ہیں کہ ہم نے اسلام کے سایہ تلے زندگی گزارنا چھوڑ دیا ہے ورنہ یہ دن نہ دیکھتے پڑتے ۔
ایک مومن کا اس بات پر ایمان ہونا چاہئے کہ ہمارا اصل مددگار صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک ہے ،اس کے علاوہ کوئی مدد گار نہیں جیساکہ خود کلام رب اس کی گواہی دیتا ہے ۔
وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ (آل عمران:126)
ترجمہ: اور مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں والا ہے ۔
اسی طرح دوسری جگہ فرمان الہی ہے :
بَلِ اللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ (آل عمران :150)
ترجمہ: بلکہ اللہ ہی تمہارا خیرخواہ ہے اور وہی سب سے بہتر مدرگارہے۔
جس کا مددگار اللہ ہو اسے دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی ، یہ ضمانت بھی اللہ تعالی نے خود دی ہے، فرمان پروردگار ہے :
إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (آل عمران :160)
ترجمہ: اگر اللہ تعالی تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آ سکتا ،اگر وہ تمہیں چھوڑدے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے ،ایمان والوں کو اللہ تعالی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے ۔
یہاں ایک مومن کو یہ عقیدہ بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ جو لوگ غیراللہ کو مدد کے لئے پکارتے ہیں ایسے لوگ شرک و کفر میں مبتلا ہیں۔ دراصل یہ بڑی وجہ ہے جس سے اللہ کی مدد آنی بند ہو گئی ۔ اور جنہیں اللہ کے علاوہ مدد کے لئے پکارا جاتا ہے وہ تو ہماری کچھ مدد نہیں کر سکتے بلکہ وہ اپنے آپ کی مدد کرنے کی بھی طاقت نہیں رکھتے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَا أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ (الاعراف :197)
ترجمہ: اور تم جن لوگوں کو اللہ کے علاوہ پکارتے ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے اور نہ ہی وہ اپنی مدد کر سکتے ہیں۔
اب یہاں ان اسباب کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے یا یہ کہیں جن کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے ۔ 
(1) اللہ پر صحیح ایمان  
 جو لوگ اللہ پر صحیح معنوں میں ایمان لاتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے وہ اس کی طرف سے مدد کے مستحق بن جاتے ہیں یعنی اللہ ایسے لوگوں کا مددگار بن جاتا ہے اور ایسے ایمان داروں کی مدد کرنا اللہ اپنے ذمہ لے لیتا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے : وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ (الروم:47)
ترجمہ: اور ہم پر مومنوں کی مدد کرنا لازم ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ (الحج :38)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی سچے مومن کی (دشمنوں کے مقابلے میں) مدافعت کرتا ہے ، کوئی خیانت کرنے والا ناشکرا اللہ تعالی کو ہرگز پسند نہیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ (غافر:51)
ترجمہ: یقینا ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد دنیاوی زندگی میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے ۔
آج ایمان کے دعویداروں کی بہتات ہے مگراکثرلوگ شرک کے دلدل میں پھنسے ہیں ، رب پر صحیح سے ایمان نہیں لاتے ، یا ایمان لا کر شرک و بدعت کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے نصرت الہی بند ہو گئی ۔
رب العزت کا فرمان ہے : وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ (یوسف:106)
ترجمہ: ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں۔
(2) عمل میں اخلاص 
ہماری جدوجہد اور عمل میں اخلاص وللہیت ہو تو نصرت الہی کا حصول ہو گا ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّما يَنصرُ اللَّهُ هذِهِ الأمَّةَ بضَعيفِها، بدَعوتِهِم وصَلاتِهِم ، وإخلاصِهِم (صحيح النسائي:3178)
ترجمہ: بیشک اللہ اس امت کی مدد کرتا ہے کمزور لوگوں کی وجہ سے ، ان کی دعاوں ، ان کی عبادت اور ان کے اخلاص کی وجہ سے ۔
اس حدیث میں نصرت الہی کے تین اسباب بیان کئے گئے ہیں ۔ دعا، نماز، اخلاص ۔
ہمارے عملوں میں اخلاص کا فقدان ہے جو اللہ کی ناراضگی اور اس کی نصرت سے محرومی کا سبب بناہوا ہے ۔ اولا عملوں میں کوتاہی اس پر مستزاد اخلاص کی کمی یا فقدان ۔ شہرت، ریا ، دنیا طلبی نے ہمارے عملوں کو اکارت کر دیا اور ساتھ ساتھ نصرت الہی سے محروم بھی ہو گئے ۔
(3) دعا 
 دعا مومن کا ہتھیار ہے جو ہمیشہ اپنے ساتھ  رکھتا ہے ، سفر میں ہو یا حضر میں حالت جنگ ہو یا حالت امن ، مصائب و مشکلات ہوں یا خوشحالی ، ہرموقع پر مومن دعا کے ذریعہ رب کی رضامندی اور مدد طلب کرتا ہے ۔ سیرت نبوی ﷺ سے اس کی ایک مثال دیکھیں ۔
بدر کا میدان ہے ، ایک طرف نہتھے 313 مسلمان ،دوسری طرف ہتھیاروں سے لیس ایک ہزار کا لشکر کفر۔ آپ ﷺ نے بڑی جماعت کے مقابلے میں اپنی چھوٹی جماعت کو دیکھا تو اللہ تعالی سے نصرت کی دعا کی ۔ مسلم شریف کے الفاظ ہیں :
اللهمَّ ! إن تهلِك هذه العصابةُ من أهلِ الإسلامِ لا تُعبدُ في الأرض(صحيح مسلم:1763)
ترجمہ: اے اللہ ! مسلمانوں کی یہ جماعت اگر ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر کوئی تیری عبادت کرنے والا نہ ہو گا۔
رب نے دعا قبول کرلی اور قرآن کی آیت نازل کرکے نصرت کی بشارت سنائی ۔
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ (الانفال:9)
ترجمہ: اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے پھر اللہ تعالی نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے آئیں گے ۔
آج ہماری دعاؤں کی عدم قبولیت میں تین عوامل کا زیادہ دخل ہے ، اخلاص کا فقدان، بدعملی اور حرام معیشت ۔ ان تین منفی عوامل کو دور کردیا جائے تو دعائیں بلاشبہ قبول ہوں گی۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ غیراللہ سے امداد طلب کرتا ہے جو سراسر شرک ہے ، اس حال میں مرنا موجب جہنم ہے ۔ دعا عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ کے لئے ہے ، آج مسلمانوں کے ایک مخصوص طبقہ نے(جن کی اکثریت ہے) مشرکوں کی طرح غیراللہ کی پکار لگا کے دنیا سے امن وامان اور نصرت الہی کو روک رکھا ہے۔ ایسے گمراہ مسلمانوں کی اصلاح قلیل سچے مومن کے سر ہے ۔
(4) نماز
رب کی خالص عبادت مومن کی زندگی اور مقصد حیات ہے ،اس دعوت کو لے کرتمام انبیاء آئے، نبی ﷺ نے مکی دور میں جوتیرہ سال پر محیط پر اسی دعوت پہ کڑی محنت کی ۔ نماز مومن سے کسی بھی حال میں معاف نہیں ،میدان جنگ میں جہاں ایک لمحہ دوسری جانب التفات کا موقع نہیں نماز کے وقت میں نماز قائم کرنا ہے یعنی وقت نماز کو بھی مؤخر نہیں کر سکتے اور کیونکر معاف ہو یہ تو مقصد حیات ہے ۔ نبی ﷺ فرائض کے علاوہ سنن کی ادائیگی اس قدر کرتے کہ پاؤں میں ورم آ جاتا۔ آپ ﷺ ہر پریشان کن معاملہ میں نماز کا سہارا لیتے ۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ مصائب کے مواقع پر نماز کا حکم ہے، بارش کی نماز، سورج اور چاند گرہن کی نماز، اور زلزلہ کی نماز وغیرہ۔
لہذا ہم نماز کے ذریعہ رب سے استغاثہ کریں ۔ اللہ کا حکم ہے : وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (البقرة:45)
ترجمہ: اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو ،یہ چیز شاق ہے مگر ڈرنے والوں پر۔
(5) صبر
مصائب پر صبرکرنے سے بھی اللہ کی مدد آتی ہے ، جزع فزع کرنا نصرت الہی کے منافی ہے ۔ اس سلسلے میں صبر ایوب اعلی نمونہ ہے ۔ جو مومن صبر کے ساتھ رب ہی کو پکارتا ہے اور اسی سے امداد طلب کرتا ہے اسے اللہ تعالی ہر بلا سے نجات دیتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ اللہ لگا رہتا ہے ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (البقرۃ:153)
ترجمہ: اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو،اللہ تعالی صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے ۔
(6) اللہ ہی پر توکل 
 انسان بے صبرا ہے ، تھوڑی سی مصیبت آتی ہے گھبرا جاتا ہے اور رب سے نجات مانگنے کی بجائے غیروں سے امداد طلب کرنے لگ جاتا ہے اور اسی پر توکل کر بیٹھتا ہے ۔ اگر کوئی مصیبت غیر اللہ کے در پر جانے سے ٹھیک ہو جائے تو اعتماد میں مزید پختگی آ جاتی ہے اور دوسروں کو بھی غیراللہ کے درپر جانے کی دعوت دیتا ہے ۔ یہاں ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ جو بھی جس دربار پہ بھی جائے اور جس سے بھی مانگے دینے والا صرف اللہ ہے ، آپ قبر پہ سوال کرکے یہ نہ سمجھیں ہمیں قبر والے نے دیا ہے ، دیتا تو اللہ ہی ہے چاہے آپ جائز طریقے سے مانگیں یا ناجائز طریقے سے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جائز طریقے سے مانگنے سے اللہ بخوشی دیتا ہے اور ناجائز طریقے سے مانگنے سے کبھی کبھی اللہ دے تو دیتا ہے بدلے میں اس کا ایمان چھین لیتا ہے ۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ جو لوگ پتھروں سے مانگتے ہیں ، مورتی بنا کراس سے مانگتے ہیں ان کی بھی عقیدت یہی ہوتی ہے کہ ہمیں مورتیوں نے دیا ہے ۔
مسلمان کو صرف اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے ، یہ عبادت کے قبیل سے ہے اور توکل نصرت الہی کا سبب ہے ۔ 
إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (آل عمران :160)
ترجمہ: اگر اللہ تعالی تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آ سکتا ، اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے ،ایمان والوں کو اللہ تعالی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے ۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ رب کا فرمان ہے : فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (آل عمران:159)
ترجمہ: پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ تعالی پر بھروسہ کریں ، بیشک اللہ تعالی توکل کرنے والوں سےمحبت کرتا ہے ۔
یہ چند مثبت عوامل تھے جن سے انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی زندگی میں اللہ کی نصرت و تائید حاصل ہوتی ہے ۔ نیز منفی عوامل سے گریز کرنا پڑے گا جن کا احاطہ اس چھوٹے سے مضمون میں مشکل ہے ۔ بطور خلاصہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم شرک و بدعت، فسق وفجور، اعمال قبیحہ ، فتنہ وفساد، ظلم وفساد، کفرونفاق اور حرام خوری(رشوت، سود، غبن، چوری، حرام پیشہ) وغیرہ سے بچیں اور اسلام کے سایہ تلے زندگی بسر کریں یعنی دین کو پوری طرح قائم کریں ،اللہ کا وعدہ ہے وہ ضرور ہماری مدد کرے گا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ (محمد:7)
ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین ) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔
اجتماعی زندگی میں فتح ونصرت کے لئے مذکورہ بالا اسباب کے علاوہ مزید چند کام کرنے کی ضرروت ہے۔ ان میں سے ایک تمام مسلمانوں میں اتحاد (افتراق سے دوری)، دوسرا باہم مشاورت، تیسرامادی وسائل کی فراہمی (مجرب لشکر، جدید اسلحے، کارگردفاعی قوت) ،چوتھاعملی اقدام (جمود کا سدباب) اور پانچواں مسلک پرستی کا خاتمہ بالفاظ دیگر شریعت الہیہ کا نفاذ۔ سوچنے کا مقام ہے آج امریکہ پچاس ریاستوں کو ملا کر سپرپاور بنا ہوا ہے جبکہ ہمارے پاس 57 مسلم ممالک ہیں ہم کیوں نہیں سپرپاور؟ جبکہ مادی قوت کی بھی ہمارے پاس کمی نہیں۔
یاخیرالناصرین! قدم قدم پر تیری نصرت وتائیدکی ضرورت ہے تو ہمیں اپنی نصرت سے نواز دے، مسلم قوم ظالموں کے نرغے میں ہیں غیبی مدد کے ذریعہ توان کی حفاظت فرما اور دنیا میں دوبارہ ہمیں کافروں پرغلبہ دے ۔
آمین
مقبول احمد سلفی
داعی /اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف

اذان

حضور اکرم ﷺ کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد آپکی اقتداء میں ادائیگی نماز کا سلسلہ شروع ہوا، نماز کے اوقات میں صحابہ کرام ازخود جمع ہوجاتے اور جماعت ہوجاتی۔ جب نمازیوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوگیا ہے تو اب ضرورت محسوس ہوئی کہ کوئی شعار ایسا ہونا چاہیے جس سے جماعت کا اعلان ہو جائے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ایک مجلس مشاورت منعقد کی گئی ایک تجویز یہ پیش ہوئی کہ نماز کے وقت ایک پرچم اونچا کرکے لہرایا جائے۔ سب لوگ اسے دیکھ کر مسجد میں پہنچ جائیں، ایک مشورہ یہ پیش ہوا کہ نماز سے پہلے بگل بجایا جائے لیکن حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا: یہ یہودیوں کا طریقہ ہے۔ ہمیں ان سے مشابہت نہیں کرنی چاہیے ۔ ایک صاحب نے تجویز دی کہ ناقوس پھونکا جائے۔ آپ نے فرمایا :یہ عیسائیوں کا طریقہ ہے، کسی نے رائے دی کہ ایک اونچے مقام پر آگ روشن کردی جائے۔ اس شعلوں کو دیکھ کر لوگ مطلع ہوجائینگے۔آپ نے اسے ’’شیوۂ مجوس‘‘ ہونے کی وجہ سے مسترد فرما دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ نماز کا وقت ہو تو ایک شخص بلند آواز سے اس کا اعلان کرے۔ آپکی اس تجویز پر صاد فرمایا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اوقاتِ نماز کا اعلان کیا کریں۔ اس طرح شروع میں الصلوٰۃ جامعۃ پکار دیا جاتا۔
حضور اقدس ﷺکے صحابی حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک شخص ہے جس نے دوسبز چادریں اوڑھی ہوئی ہیں اور ہاتھ میں ناقوس پکڑا ہوا ہے۔ حضرت عبداللہ نے اس سے کہا اے بندۂ خدا کیا یہ ناقوس فروخت کرو گے۔ اس نے پوچھا تم اسے لیکر کیا کرو گے؟ آپ نے کہا ہم اس کے ذریعے لوگوں کو دعوتِ نماز دیا کرینگے۔ اس نے کہا کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتائوں، انہوں نے کہا بڑی نوازش ہوگی۔ اس نے کہا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ کلمات سنائواور عرض کرو کہ لوگوں کو اس طرح نماز کی دعوت دیا کریں،اور کلمات اذانِ حضرت عبداللہ کوسنائے۔ حضرت عبداللہ بیدار ہوگئے، اور اسی وقت حضور کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوگئے۔ اور اپنا خواب سنایا۔ آپ نے خواب سماعت فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا۔ یہ سچا خواب ہے، انشاء اللہ۔ صبح صادق ہوئی تو حضور اکرم ﷺ نے حضرت عبد اللہ سے فرمایا کہ بلال کو ساتھ لے جائو اور انہیں اذان کے کلمات سناتے جائو، وہ انہیں بلند آواز سے کہتے جائینگے۔ حضرت عمرابن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی رات ایسا ہی خواب دیکھا تھا۔ جب مدینہ منورہ کی فضائوں میں اذانِ بلالی بلند ہوئی تو حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ ’’اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں نے بھی اسی طرح کاخواب دیکھا ہے۔‘‘

سردی میں نماز کے لیئے جانا

رات کا آخری پہر تھا اور تیز بارش کے ساتھ ساتھ سردی کا تو پوچھیئے ہی مت ہڈیوں میں گھسی جا رہی تھی میں اپنی کار میں ایک دوسرے شہر سے کاروباری دورے سے واپس اپنے شہر آ رہا تھا کار کے دروازے بند ہونے کے باوجود میں سردی محسوس ہو رہی تھی 

دل میں ایک ہی خواہش تھی کہ بس جلدی سے گھر پہنچ جاؤں اور بستر میں گھس کر سو جاؤں سڑکیں بالکل سنسان تھی یہاں تک کہ کوئی جانور بھی نظر نہیں آ رہا تھا لوگ اس سرد موسم میں اپنے گرم بستروں میں دبکے ہوئے تھے 
جیسے ہی مینے کار اپنی گلی کی طرف موڑی تو مجھے کار کی روشنی میں بھیگتی بارش میں ایک سایہ نظر آیا اس نے بارش سے بچنے کے لیئے سر پر پلاسٹیک کے تھیلے جیسا کچھ اوڑھ رکھا تھا اور وہ گلی میں رکے ہوئے پانی سے بچتے ہوئے آہستہ آہستہ جا رہا تھا 

مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ اس موسم میں جب کہ رات کا بالکل آخری وقت ہے کون اپنے گھر سے باہر۔نکل سکتا ہے مجھے اس پر ترس آیا کہ پتا نہیں کس مجبوری نے اس کو ایسی طوفانی بارش میں باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے 

ھو سکتا ہے کہ گھر میں کوئی بیمار ہوگا اور اسے اسپتال لے جانے کے لیئے کوئی سواری ڈھونڈ رہا ہوگا
مینے اس کے قریب جاکر گاڑی روکی اور شیشا نیچے کر کے پوچھا
کیا بات ہے بھائی صاحب آپ کہاں جا رہے ہو سب ٹھیک تو ہے ایسی کونسی مجبوری آ گئی کہ ایسی تیز بارش اور اتنی دیر رات سردی میں آپکو باہر نکلنا پڑا آئیے میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں 
اس نے میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا 
بھائی بہت بہت شکریہ میں یہاں قریب ہی جا رہا ہوں اس لیئے پیدل ہی چلا جاؤنگا
مینے پوچھا لیکن آپ ایسی سردی اور بارش میں جا کہاں رہے ہو
اس نے کہا مسجد
مینے پوچھا اس وقت اس وقت مسجد میں جاکر کیا کروگے
تو اس نے جواب دیا کہ میں اس مسجد میں مؤذن ہوں اور فجر کی اذان دینے کے لیئے جا رہا ہوں
یہ کہہ کر وہ اپنے راستہ پر چل پڑا اور مجھے ایک نئی سوچ میں گم کر گیا
کیا آج تک ہم نے یہ سوچا ہے سخت سردی کی رات میں طوفان ہو یا بارش کون ہے جو اپنے وقت پر اللہ کے بولاوے کی صدا بلند کرتا ہے کون ہے جو آواز بلند کرتا ہے کہ آؤ نماز کی طرف آؤ کامیابی کی طرف اور اسے اس کامیابی کا کتنا یقین ہے کہ اسے اس فرض ادا کرنے سے نا تو سردی روک سکتی ہے اور ناہی بارش
جب ساری دنیا اپنے گرم بستروں میں نیند کے مزے لے رہی ہوتی ہے تب وہ اپنا فرض ادا کرنے کے لیئے اٹھ جاتا ہے 
اور آج تک ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ان کی تنخواہ کتنی ہوگی شاید 4000 سے 6000 روپیئے ایک مزدور بھی روزانہ 400 روپیئے کے مطابق مہینہ 12000 روپیئے کما لیتا ہے ؟
تب مجھے یقین ہوئا کہ ایسے ہی لوگ ہے جن کی وجہ سے اللہ ہم پر مہربان ہے ان ہی لوگوں کی برکت سے دنیا کا نظام چل رہا ہے میرا دل چاہا کہ نیچے اتر کر اس کو گلے لگاؤں لیکن وہ جا چکا تھا 
اور تھوڑی ہی دیر کے بعد فضا اللہ اکبر کی صدا سے گونج اٹھی اور میرے قدم گھر جانے کے بجاء مسجد کی طرف اٹھ گئے اور آج مجھے سردی میں نماز کے لیئے جانا گرم بستر اور نیند سے بھی زیادہ اچھا لگتا ہے