کامیاب زندگی کی شاہ کلید

ﷲ تعالیٰ کا صد ہزار بار شُکر ہے کہ اس ذات نے ہمیں انسان بنانے کے بعد ایمان جیسی نعمت عطا فرمائی۔ اہل ایمان کی پہچان یہی ہے کہ وہ ﷲ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان کے ساتھ شریعت اسلامی کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ ﷲ کے رسول ﷺ نے ہر موقع پر ایسی باتیں سکھلائی ہیں جن پر عمل کرنا دونوں جہانوں کی کامیابیوں کا باعث ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی درج ذیل حدیث مبارک ہے جس میں آپ ﷺ نے کامیاب ہونے کی پانچ قیمتی نصیحتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: کون ہے جو مجھ سے چند نصیحتیں سیکھے تاکہ خود ان پر عمل کرے اور دوسروں تک بھی پہنچائے اور وہ بھی ان پر عمل کر سکیں۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے ﷲ کے رسول ﷺ! میں اس کام کے لیے تیار ہوں۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور یہ پانچ نصیحتیں شمار کرائیں
شریعت کی حرام کردہ چیزوں سے خود کو بچاؤ تو سب سے زیادہ عبادت گزار بندے بن جاؤ گے۔

2: ﷲ کی تقسیم پر دل و جان سے راضی ہو جاؤ تو سب سے زیادہ غنا حاصل ہو جائے گا یعنی ﷲ تمہیں (لوگوں کے مال و منصب سے) بے نیازی کی دولت نصیب فرمائیں گے۔
3: اپنے ہمسائیوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کا معاملہ کرو تو (کامل صفات والے اچھے اور سچے) مومن بن جاؤ گے۔
4: صحیح معنوں میں مسلمان تبھی کہلاؤ گے جب دوسرے مسلمان کے لیے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو۔
5: زیادہ (فضول باتوں پر) کھل کھلا کر ہنسنے سے بچو کیوں کہ (بے فکری کی وجہ سے) زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ (جامع الترمذی)

محرمات سے بچنا

شریعت اسلامیہ میں جن کاموں سے روکا گیا ہے انہیں ’’منہیات‘‘ اور جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے انہیں ’’مامورات‘‘ کہا جاتا ہے۔ منہیات کو کرنا اور مامورات کو چھوڑنا حرام ہے۔ حدیث مبارک میں اسی حرام سے بچنے والے کو سب سے بڑا عبادت گزار قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے عقائد اسلامیہ کو اپنانے کے بعد فرائض و واجبات کو ادا کرنا سب سے بڑی عبادت ہے۔ اور یہ اس وقت تک کامل عبادت نہیں بن سکتی جب تک گناہوں کو چھوڑ نہ دیا جائَے اور جو گناہ ہو چکے ہیں ان سے سچے دل سے توبہ نہ کر لی جائے۔ محرمات سے بچنے والے کو سب سے بڑا عبادت گزار اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ بعض محرمات کا ارتکاب نیکیوں کے اجر و ثواب کو ختم کر دیتا ہے۔ اس لیے بڑا عبادت گزار وہی ہو گا جس کی عبادات محفوظ رہیں اور عبادات اسی کی محفوظ رہیں گی جو گناہوں سے خود کو بچائے گا۔ عوام الناس کی بنیادی غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ فرائض و واجبات کو ادا نہیں کرتے اور نفلی عبادات میں مشغول رہتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جو شخص فرض نماز کو چھوڑ کر نوافل میں مشغول ہو جائے، زکوٰۃ، عشر صدقہ الفطر اور قربانی کو چھوڑ کر رفاہی کاموں میں اپنے پیسے کو خرچ کرے، فرض روزوں کو چھوڑ کر نفلی روزوں کا اہتمام کرے، فرض حج کو چھوڑ کر نفلی عمرے ادا کرتا رہے۔ نفلی عبادات کا ثواب اپنی جگہ لیکن فرائض و واجبات کو چھوڑنے کا گناہ اپنی جگہ۔

چند حرام کام
کفر، شرک، اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام کو چھوڑ دینا یعنی ارتداد، دین میں کمی یا بیشی کرنا یعنی الحاد و بدعت، قرآن و حدیث کی غلط اور من مانی تشریح کرنا، جھوٹ، ناحق تہمت، سود، رشوت، حسد، غیبت، چغل خوری، کسی کا ناحق مال کھانا، فحاشی و عریانی کو عام کرنا، تکبّر، غرور، ریاکاری، فخر و مباہات، والدین کی نافرمانی، جھوٹی گواہی، زنا، لواطت، بدنظری، ظلم، گالیاں بکنا، کسی پر تشدد کرنا، مُردوں کو گالی دینا، احسان جتلانا، بدگمانی، بدزبانی بالخصوص اسلام کی مقتدر شخصیات کو بُرا کہنا، قطع رحمی کرنا، بول چال چھوڑنا، بلاوجہ جاسوسی کرنا، دھوکے بازی، خیانت، چوری، ڈکیتی، غیر محرم مرد یا عورت سے بلاوجہ گفت گو کرنا، مرد و خواتین کا ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنا، عورت کا اپنے شوہر کی نافرمان اور ناشُکری ہونا، مرد کا اپنی بیوی کے مالی، جسمانی، معاشی اور معاشرتی حقوق ادا نہ کرنا، اسراف یعنی فضول خرچی، شادی بیاہ اور طرز معاشرت میں غیر اسلامی روایات اپنانا، فرائض و واجبات کو چھوڑنا بالخصوص نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، کاہن ( جسے آج کی زبان میں دست شناس یا نجومی کہا جاتا ہے) کے پاس اپنی قسمت جاننے یا سنوارنے کے لیے جانا، جادو، ﷲ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانا، جھوٹی بات پر قسم کھانا، ملاوٹ کرنا، ناپ تول میں کمی کرنا، بد عہدی کرنا، میت پر نوحہ کرنا، بین کرنا، گریبان چاک کرنا، رخسار پیٹنا، قبروں کی پامالی کرنا، بائیں ہاتھ سے کھانا پینا، بلاوجہ کھڑے ہو کر کھانا پینا، مسلمان پر اسلحہ اٹھانا، غیر مسلموں کو بلاوجہ قتل کرنا، شراب پینا، چرس پینا، افیون پینا، بھنگ پینا، کسی کو نشہ پلانا، گانا، عشقیہ غزلیں، موسیقی، فلمیں، ڈرامے دیکھنا اور سننا، مرد کا سونا استعمال کرنا، خواتین کا بے پردہ ہونا، شعائر دین کا مذاق اڑانا وغیرہ ۔

ﷲ کی تقسیم پر راضی رہنا
ﷲ رب العزت نے جتنا رزق مقدر میں لکھ دیا ہے وہ ضرور مل کر رہے گا۔ اس کے لیے جائز اسباب کو اختیار کرنے کا حکم شریعت خود دیتی ہے۔ جو مل جائے اس پر شُکر ادا کیا جائے کیوں کہ جو چیز ملی ہے وہ محض ﷲ کے فضل سے ملی ہے اور اسباب کی توفیق کا مل جانا بھی ﷲ کا فضل ہے۔ مومن کی پہچان یہ ہے نعمتوں پر شُکر بجا لاتا ہے اور تکالیف و آزمائشوں پر صبر سے کام لیتا ہے۔ وہ کسی دوسرے سے حسد نہیں رکھتا، طمع، لالچ، حرص و ہوس سے خود کو بچاتا ہے۔ ہر حال میں ﷲ سے راضی رہتا ہے۔ کوئی نعمت مل جائے تو شُکر اور کوئی مصیبت آجائے تو صبر کرتا ہے۔

بندہ شاکر و صابر کب بنتا ہے؟
حضرت عمرو بن شعیبؓ اپنے دادا عبدﷲ بن عمروؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول ﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، مفہوم: دو خصلتیں ایسی ہیں جس میں وہ پیدا ہو جائیں ﷲ کریم اس کو صابر و شاکر لکھ دیتا ہے پہلی خوبی دین داری کے معاملے میں اپنے سے فائق انسان کی طرف دیکھے اور پھر اس کی اقتداء میں لگ جائے خود بھی نیکی اختیار کرے اور اس جیسی نیکیوں کو انجام دینے کی بھر پور کوشش کرے۔ دوسری خوبی اس میں یہ ہو کہ دنیاوی امور میں اپنے سے کم تر انسان کو دیکھے پھر ﷲ کی طر ف سے ملنے والی زیادہ نعمت کو دیکھے اس پر ﷲ کا شُکر ادا کرے تو ایسے شخص کو ﷲ پاک صابر و شاکر لکھ دیں گے۔ (جامع الترمذی)

ہمسایوں کے حقوق کی پاس داری
ادیان عالم میں اسلام وہ واحد دین ہے جس میں پڑوسیوں کے حقوق کو ادا کرنے کی سب سے زیادہ ترغیب دی گئی ہے۔ اور اسے کامل ایمان والے مومن کی صفت قرار دیا گیا ہے۔ ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پڑوسیوں کے (حقوق) کے بارے میں میرے پاس جبریل امینؑ اتنی بار تشریف لائے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ ایک پڑوسی کو دوسرے پڑوسی کی میراث میں وارث (حق دار) قرار دیا جائے گا۔ (صحیح البخاری)

پڑوسیوں کے بنیادی حقوق:
حضرت عمرو بن شعیبؓ والد کے واسطے سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: کیا تمہیں پڑوسیوں کے حقوق کا پتا ہے؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا: جب وہ آپ سے جانیں یا مالی مدد مانگیں تو اپنی استطاعت اور اس کی ضرورت دونوں کو ملحوظ رکھ کر ان کی مدد کریں۔ اگر ضرورت کے پیش نظر وہ قرض مانگیں تو انہیں قرض دیا جائے۔ جب فقر اور محتاجی کی حالت کو پہنچ جائے پھر وہ مدد نہ بھی مانگے اور قرض نہ بھی مانگے تب بھی اپنی حیثیت کے پیش نظر اس کے فقر و تنگ دستی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت اور بیمار پرسی کی جائے۔ جب ان کے ہاں کوئی خوشی کا موقع آئے تو ان کو مبارک باد دینا۔ جب ان کے ہاں کوئی غمی کا موقع آئے تو ان کے ساتھ اظہار ہم دردی کرنا۔ جب ان کے ہاں فوتگی ہو جائے تو (بہ شرطِ صحتِ عقائد) اس کے جنازے میں شرکت کی جائے۔ اپنے گھر کی دیوار اس کی اجازت کے بغیر اتنی اونچی نہ کی جائے کہ اس کے گھر کی ہوا رک جائے۔ گھر میں کھانا تیار کرتے وقت پڑوسی کو تکلیف نہ دی جائے۔ اپنے لیے پھل وغیرہ خریدیں تو ان میں سے کچھ پڑوسیوں کو بھی ہدیے کے طور پر بھیج دیں۔ (شعب الایمان للبیہقی)

مسلمان بھائیوں کا خیال
حدیث مبارک میں صحیح معنوں میں مسلمان ہونے کے لیے اس چیز کو ضروری قرار دیا جا رہا ہے کہ بندہ جو چیز اپنے لیے پسند کرتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند کرے۔ چناں چہ اسی مضمون کی ایک دوسری حدیث ہے کہ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری)

اسلام کی تعلیمات کا مقابلہ دنیا کا کوئی دین نہیں کر سکتا۔ بات کو اتنے خوب صورت پیرائے میں بیان کر دیا ہے کہ ہر انسان کو بہ آسانی سمجھ میں آجائے۔ جو تمہیں پسند ہے اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرو۔ بندے کی تمام پسندیدہ چیزوں کا خلاصہ دو چیزیں ہیں: عزت اور راحت۔ بعض ایسے اسباب ہیں جو انسان معاشرے میں عزت کے حصول کے لیے اختیار کرتا ہے اور بعض ایسے اسباب ہیں جو انسان راحت کے حصول کے لیے اختیار کرتا ہے۔ حدیث مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ بس اپنی زندگی کے ہر موڑ پر دیکھتے جاؤ کہ جو تمہیں پسند ہے وہ اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرو۔ اگر آج کا معاشرہ اس اصول پر آجائے فساد کی جڑیں ہی اکھڑ جائیں۔

زیادہ ہنسنے سے دل مردہ
حدیث مبارک میں بے فکری اور غفلت کی وجہ سے کھل کھلا کر ہنسنے سے منع کیا گیا ہے اور اسے مردہ دلی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ خوش ہونے کی بات پر خوش ہونا الگ بات ہے لیکن آخرت سے غافل ہو کر، انجام سے بے فکر ہو کر قہقہے لگا کر زور سے ہنسنا الگ بات ہے۔ ﷲ کے رسول ﷺ کے شمائل و اوصاف میں ہنسنے کا تذکرہ ان الفاظ میں ملتا ہے۔ ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو کبھی اتنے زور سے (قہقہہ لگا کر) ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ کا حلق مبارک نظر آئے۔ (صحیح البخاری)

ایک حدیث مبارک میں مردہ دلی کے ساتھ اس بات کا اضافہ بھی ملتا ہے کہ زیادہ قہقہے لگانے سے چہرے کا نور چھن جاتا ہے۔ انسان کی بات بے وقعت ہو جاتی ہے، لوگوں کے دلوں میں عزت ختم یا کم ہو جاتی ہے، سنجیدگی اور متانت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ باوقار شخصیت کا نقش مٹ جاتا ہے جس کا لازمی نتیجا یہ نکلتا ہے کہ انسان کی معاشرے میں حیثیت کم ہو جاتی ہے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ ہنسنے کے موقع پر ہنسنا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ راتوں کو تنہائیوں میں بندہ ﷲ کے حضور رونا بھول جائے۔ ﷲ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

مولانا محمد الیاس گھمن

چھوٹی نیکی بڑا اَجر

اسلام دنیا کا واحد دین ہے جو حقوق العباد اور حقوق ﷲ پر بالخصوص زور دیتا ہے اور انسان کی عزت نفس کا خیال کرتا اور دوسروں کو اس کی تعظیم کا حکم دیتا ہے۔ دین اسلام میں حسنات کو قرب الٰہی کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ صوم و صلوٰۃ، زکوٰۃ و حج کے علاوہ بھی بے شمار طریقِ حسنات بیان کیے گئے ہیں جس کی ادائی سے بندہ اپنے رب سے قریب اور محبوب خدا ﷺ کی نگاہ میں محبوب ہو جاتا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم
کسی کے لیے مسکرا دینا بھی صدقہ ہے۔
راستے سے کانٹا ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔
بھوکے کو کھانا کھلا دینا اور لباس سے محروم کو کپڑے پہنا دینا بھی صدقہ ہے۔
کسی یتیم، غریب، مسکین، فقیر کے سر پر دستِ شفقت رکھ دینا بھی صدقہ ہے۔
بھٹکے ہوئے مسافر کو راستہ بتا دینا اور اندھیری رات میں چراغ جلا دینا بھی صدقہ ہے۔ پیاسے کو پانی پلا دینا بھی صدقہ ہے۔

یہ وہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہیں جو دیکھنے میں تو کوئی حقیقت و زیادہ وقعت نہیں رکھتیں یہ تو چلتے پھرتے ہر شخص کر سکتا ہے، لیکن دراصل اسلام میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو بالخصوص چھوٹی نیکیوں کو بڑی اہمیت دی گئی ہے اور ان چھوٹی نیکیوں کا اجر بہت بڑا ہے، اگر اس بات کو سمجھا جائے تو رب تعالیٰ کی نظر میں عمل و نیّت کی جو اہمیت ہے اس کے پیش نظر یہ چھوٹی نیکی ہمارے اعمال کو وزنی اور اس قدر بھاری کر سکتی ہے کہ روزِ محشر ہمیں شرمندگی نہیں ہونے دے گی۔ کیوں کہ ان کے عمل کا حکم محبوب خدا ﷺ نے ناصرف دیا ہے، بلکہ آپ ﷺ نے ان پر عمل کر کے دکھایا بھی ہے۔ اسلام کسی بھی شخص کو دکھ ، تکلیف، دھوکا یا فریب دینے کی قطعی اجازت نہیں دیتا، بلکہ وہ تو ہر ایک کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کا حکم دیتا ہے اور یہی حسن اخلاق تھا کہ آج دنیا مسلمانوں سے بھری ہوئی ہے۔ حسن عمل اور حسن اخلاق قُرب رب کریم کا پہلا زینہ ہے۔ قرآن کریم و احادیث مبارکہ ان دونوں معاملات کو نہایت شرح و بسط کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔

نیکی کیا ہے؟
یہ انسان کے دل کی آواز ہے۔ اگر ایک شخص یہ طے کرتا ہے کہ وہ اپنی ذات سے کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گا، کسی پر جبر و ظلم کے پہاڑ نہیں توڑے گا، ہر ایک کے کام آئے گا اور فرمان نبوی ﷺ کی روشنی میں اپنی نیکیاں بڑھانے کے لیے ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کرے گا، تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔ حضور نبی کریم ﷺ کے فرمان گرامی کا مفہوم ہے کہ مومن وہ ہے کہ اس کے ہاتھ اور اس کی زبان سے دوسرا محفوظ رہے۔ یہ حدیث ہما ری زندگی کا نچوڑ ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ پہل کون کرے ؟ سوال یہ ہے کہ مسلمان جب ایمان رکھتا ہے تو اسے اس بات پر کُلّی یقین ہونا چاہیے کہ جو اجر اس پر پہلے عمل کرنے والے کو ملے گا تو وہی اجر آخر والے کو بھی ملے گا، لہٰذا بلا تاخیر و انتظار خود ہی اس پر عمل پیرا ہوجانا چاہیے کہ ہر ایک کو اپنا نامۂ اعمال بھرنا ہے۔ خواہ بُرائی سے بھرے یا نیکی سے، اس لیے اچھی زندگی اور عمدہ آخرت کے لیے ’’چھوٹی نیکیوں کے بڑے اجر‘‘ پر عمل پیرا ہو جائیے۔ ﷲ تعالی ہمیں اسلام پر کامل عمل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین

حاجی محمد حنیف طیّب

ریاکاری کی مذمت

انسان کی عبادت اور اعمال کا دار و مدار نیّت پر ہے، اگر نیّت خالص ہے تو اعمال ﷲ کے ہاں قبول ہوتے ہیں، اگر نیّت میں کھوٹ ہے یا ریاکاری یا نام و نمود مقصود ہے تو ایسے اعمال بہ جائے قبولیت کے انسان کے لیے موجب وبال بنیں گے۔ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اعمال کی قبولیت کی دو شرائط ہیں، پہلی شرط یہ ہے کہ وہ عمل خالص ﷲ کے لیے ہو، دوسری شرط یہ ہے کہ وہ عمل سنّت کے مطابق ہو، ان دو شرائط میں سے کوئی بھی ایک شرط نہ پائی گئی تو وہ عمل قبول نہیں ہو گا۔ ریاکاری ایسا مذموم وصف ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمان کا بڑے سے بڑا نیک عمل ﷲ کے ہاں رائی کے دانے کی حیثیت نہیں رکھتا، اور ریاکاری کے بغیر کیا ہوا چھوٹا سا عمل بھی ﷲ کے ہاں پہاڑ کے برابر کی حیثیت رکھتا ہے۔

ﷲ رب العزت نے ریاکاری کی مذمت مختلف آیات میں بیان فرمائی ہے، ارشاد باری تعالی کا مفہوم : ’’پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔‘‘ (سورۃ الکہف) دوسری جگہ ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ’’جو لوگ اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور ﷲ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور جس کا ہم نشین اور ساتھی شیطان ہو، وہ بدترین ساتھی ہے۔‘‘ (النساء) ایک اور مقام پر ﷲ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو! جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے اور نہ ﷲ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر۔‘‘ ( البقرہ)

ان دونوں آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ریا کار اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرتا ہے کہ ﷲ سے اس کو اجر کی توقع نہیں، کیوں کہ جس سے توقع ہو گی اُسی کے لیے عمل کیا جائے گا اور ریاکار کو خالق کے بہ جائے مخلوق سے اجر کی توقع ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کا آخرت پر بھی ایمان نہیں کہ اگر ایمان ہوتا تو ہرگز خالق کو چھوڑ کر مخلوق سے اجر کی توقع نہ رکھتا اور آخرت کی باز پرس سے ڈرتا۔ احادیث مبارکہ میں بھی ریاکاری کی نبی اکرم ﷺ نے سخت مذمت بیان فرمائی ہے۔ رسول ﷲ ﷺ کے فرمان گرامی کا مفہوم: ’’کیا میں تمہیں اس چیز کی خبر نہ دوں جو میرے نزدیک تمہارے لیے مسیح دجال سے بھی زیادہ خوف ناک ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: ہاں کیوں نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: شرک خفی ہے کہ آدمی کھڑا نماز پڑھے تو کسی شخص کو اپنی طرف دیکھتا ہوا دیکھ کر اپنی نماز اور سنوار لے۔‘‘ ( سنن ابن ماجہ)

دوسری حدیث میں ہے، جب ﷲ تعالیٰ تمام اگلوں اور پچھلوں کو قیامت کے روز جس کی آمد میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا، تو ایک آواز لگانے والا آواز لگائے گا: جس نے ﷲ کے لیے کیے ہوئے کسی عمل میں کسی غیر کو شریک کیا ہو وہ اس کا ثواب بھی اسی غیر ﷲ سے طلب کرے، کیوں کہ ﷲ تعالیٰ شرک سے تمام شریکوں سے زیادہ بے نیاز ہے۔ (سنن الترمذی) ایک اور مقام پر نبی کریمؐ نے فرمایا: جو شخص شہرت کے لیے کوئی عمل کرے گا، ﷲ تعالیٰ اس کے عیوب ظاہر کر دے گا اور جو دکھاوے کے لیے عمل کرے گا ﷲ تعالیٰ اسے رسوا کر دے گا۔ (بخاری) ﷲ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا کرے۔

مولانا محمد راشد شفیع

‏قرآن مجید میں انسان کی موت کے بعد بیان کی گئی حسرتیں

  ﺍﮮ ﮐﺎﺵ! ﻣﯿﮟ ﻣﭩﯽ ﮨﻮﺗﺎ (النبأ)
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ (ﺍﺧﺮﯼ) ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ کچھ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ
(البقرہ)

 ﺍﮮ ﮐﺎﺵ! ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻣﮧ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ (ﺍﻟﺤﺎﻗﺔ)

‏ﺍﮮ ﮐﺎﺵ! ﻣﯿﮟ ﻓﻼﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮧ بناتا۔ الفرقان

  ﺍﮮ ﮐﺎﺵ! ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍللہ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﻧﺒﺮﺩﺍﺭﯼ ﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ۔ ﺍﻷﺣﺰﺍﺏ

  ﺍﮮ ﮐﺎﺵ! ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﮯ ساتھ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ۔ ﺍﻟنسا

‏ﺍﮮ ﮐﺎﺵ! ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﯿﺘﺎ (اﻟﻔﺮﻗﺎﻥ)

  ﺍﮮ ﮐﺎﺵ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ساتھ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺷﺮﯾﮏ ﻧﮧ ﭨﮭﺮﺍﯾﺎ ﮨﻮﺗﺎ (اﻟﻜﻬﻒ)

  ﺍﮮ ﮐﺎﺵ! ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﻮ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ‏ﻭﺍﭘﺲ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺟﮭﭩﻼﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮞ۔ (ﺍﻷﻧﻌﺎﻡ)

لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اسی زندگی میں اپنے عقیدے و عمل کو درست کر لیں ورنہ یہ دن آ گیا تو صرف پچھتاوا ہی رہ جائے گا۔

مکہ مکرمہ کی فضائی حدود میں جہاز کیوں نہیں اُڑتے؟

سعودی پائلٹ عبداللہ صالح الغامدی کا کہنا ہے کہ مکہ مکرمہ کی فضائی حدود سے جہازوں کے نہ گزرنے کی واحد وجہ سعودی حکومت کی جانب سے اس روٹ کو اختیار کرنے پر پابندی کا عائد کرنا ہے۔ سبق نیوز کے مطابق سعودی ہوابازی کے ماہر پائلٹ عبداللہ الغامدی کی جانب سے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری ویڈیو پیغام میں سوشل میڈیا پر کیے جانے والے ان دعوؤں کو بے بنیاد قرار دیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ مکہ مکرمہ مقناطیسی فیلڈ کے مضبوط حصار میں ہونے کی وجہ سے شہرمقدس کی فضاوں میں کوئی جہاز نہیں اڑ سکتا۔ پائلٹ الغامدی نے مزید کہا کہ اس کی اصل وجہ کوئی مقناطیسی میدان نہیں بلکہ سعودی حکومت کی جانب سے حرم شریف کے تقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے فضائی کمپنیوں کو جو روٹ دیا گیا ہے اس میں مکہ مکرمہ کی فضائی حدود میں داخل ہونے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

الغامدی کا مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی افواہیں غیرمعمولی طور پر مقبول ہوئیں جنہیں محض چند گھنٹوں میں 25 لاکھ سے زائد ویوز ملے۔ انہوں نے ان باتوں کی تردید کرتے ہوئے وضاحت کی کہ اس حوالے سے پہلے بھی متعدد بار وضاحت کی جا چکی ہے کہ حرم شریف کے تقدس کے پیش نظر وہاں فضائی روٹ نہیں رکھا گیا۔ فضائی روٹ نہ رکھنے کی دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے الغامدی کا کہنا تھا کہ اس کی سائنسی وجہ یہ ہے کہ مکہ مکرمہ بلند وبالا پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے جہاں ہوا کا دباؤ کافی ہوتا ہے جب جہاز وہاں سے گزرتے ہیں تو ہوا کے دباؤ کی وجہ سے شور زیادہ ہو جاتا ہے جو مسجد الحرام میں موجود زائرین اور عازمین کے لیے باعث پریشانی ہوتا اسی لیے سعودی حکومت نے وہاں فضائی روٹ پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔

بشکریہ اردو نیوز

بَدگوئی کے منفی سماجی اثرات

بَدگوئی کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی ایسی بات یا اشارہ جو کسی شخص کے سامنے اسے ایذا پہنچانے کی نیت سے ادا کیا جائے یا جس سے مخاطب کو ناحق ایذا پہنچے یا بات اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر شرعی یا غیر اخلاقی ہو۔ قرآن کریم میں بدگوئی کی ممانعت: قرآن میں سورہ الحجرات کی آیت میں واضح طور پر اس رویے کو بُرا سمجھا گیا اور اس کی ممانعت بیان کی گئی ہے اور باز نہ آنے والے لوگوں کو ظالموں کی صف میں شامل کیا گیا ہے۔ مفہوم: ’’اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو عیب لگاؤ اور نہ (ایک دوسرے کو) بُرے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام لگنا بُرا ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم لوگ ہیں۔‘‘ (الحجرات) اسی طرح بدگو انسان کو سورہ الھمزہ میں ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے، مفہوم: ’’ہر طعنہ زن اور عیب جوئی کرنے والے کے لیے ہلاکت ہے۔ ‘‘ (الھمزہ) سورہ القلم میں بھی طعنہ دینے والے شخص کے لیے وعید آئی ہے۔

حدیث میں بدگوئی کی ممانعت: قرآن کے علاوہ احادیث میں بھی بَدگوئی کی واضح طور پر مذمت کی گئی ہے چناں چہ ایک حدیث میں خوش خلقی کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ ’’تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو تم سب میں زیادہ بااخلاق ہو۔‘‘ (صحیح بخاری) اسی طرح ایک اور حدیث میں بیان ہوتا ہے۔ ’’جو شخص ﷲ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔‘‘ ( صحیح بخاری) اسی طرح ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ بندے کو سب سے اچھی چیز کیا عطا کی گئی؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: خوش خلقی۔ (سنن ابن ماجہ) بدگوئی کے مختلف انداز: گالی دینا، گالی کا مطلب کوئی دشنام، بدزبانی یا کوئی فحش بات بولنا ہے۔ بدگوئی کی سب سے سنگین صورت حال یہی ہے کہ مخاطب کو گالی دی جائے۔ گالی دینے کے کئی انداز ہیں جیسے کسی جانور سے منسوب کرنا، کسی غلط کردار سے موسوم کرنا، کسی فحش فعل سے نسبت دینا، کسی کے گھر کی خواتین کے بارے میں غلیظ زبان استعمال کرنا، کوئی فحش بات کہہ دینا وغیرہ۔ گالی کسی صورت میں بھی انسانی سماج میں گوارا نہیں اور اس کی ہر مہذّب فورم میں مذّمت ہی کی جاتی ہے۔

گالی دینے کا بنیادی مقصد مخاطب کی توہین کرنا، بے عزت و ذلیل کرنا اور ایذا پہنچانا ہوتا ہے۔ حالاں کہ گالی دینے والے شخص کو جواب میں خود اس بے عزتی کے عمل سے گزرنے کا احتمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آخرت میں اس کے اعمال سے نیکیاں مخاطب کے کھاتے میں بھی منتقل ہونے کا خدشہ بھی موجود ہوتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ مسلمان کو گالی دینا فسق یعنی گناہ ہے۔ ایک اور مقام پر نبی کریمؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’وہ دو شخص جو ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں، وہ دونوں شیطان ہوتے ہیں جو بکواس اور جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد) اسی طرح آپؐ نے منافق کی خصلتوں میں سے ایک خصلت یہ بتائی ہے کہ جب بھی وہ کسی سے اختلاف کرے تو گالیاں بکے (صحیح بخاری) آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’قیامت کے دن میری امّت کا مفلس وہ آدمی ہو گا جو نماز روزے زکوۃ وغیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو گی اور کسی پر تہمت لگائی ہو گی اور کسی کا مال کھایا ہو گا اور کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا تو ان سب لوگوں کو اس آدمی کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائی سے پہلے ہی ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دیے جائیں گے اور پھر اس آدمی کو جہنّم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘
( صحیح مسلم)

گالی کی سب سے سنگین صورت یہ ہے کسی مسلمان کو کافر کہا جائے۔ اس بارے میں آپؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’جس نے کسی کو کافر کہا یا ﷲ کا دشمن کہہ کر پکارا حالاں کہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا۔‘‘ (مسلم)  لعنت کرنا: بدگوئی کا ایک اور پہلو لعنت کرنا ہے۔ لعنت کرنے کا مطلب کسی کو خدا کے عذاب کی یا خدا کی رحمت سے محروم کرنے کی بَددعا دینا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ہم کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ ﷲ تجھے برباد کرے یا خدا تجھے غارت کرے وغیرہ۔ یہ لازمی طور پر ایک سنگین بَددعا ہے جس سے مخالف کے بارے میں ہمارے عزائم کا اظہار ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص پر بلاجواز لعنت کی جارہی ہے تو یہ ایک سنگین گناہ ہے۔ اسی لیے حدیث میں لعنت کرنے کو مومن کے قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ (بخاری) لعنت کرنے والوں کے بارے میں نبی کریمؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’بندہ جب کسی چیز پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی جانب پروان چڑھتی ہے اور آسمان کے دروازے اس پر بند کر دیے جاتے ہیں پھر وہ زمین کی جانب اترتی ہے تو اس کے لیے زمین کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں پھر دائیں بائیں جگہ پکڑتی ہے جب کہیں کوئی داخلے کی جگہ نہیں ملتی تو جس پر لعنت کی گئی ہے اس کی طرف جاتی ہے اگر وہ اس لعنت کا حق دار ہو ورنہ کہنے والے کی طرف لوٹ جاتی ہے۔‘‘ (سنن ابوداؤد) آپؐ نے عورتوں کے بڑی تعداد میں جہنم میں جانے کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ وہ کثرت سے لعنت کرتی ہیں۔

عیب جوئی کرنا: عیب جوئی کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کے عیب بیان کرنا، ان کی خامیوں کو بیان کرنا، نقص نکالنا، نکتہ چینی کرنا، بلاجواز تنقید کرنا یا یا زبردستی ان میں کوئی مفروضہ کمی کو بیان کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ چوں کہ عیب جوئی کا منطقی نتیجہ ایذا رسانی ہے، جس کی قرآن میں ان الفاظ میں مذمت کی گئی ہے، مفہوم: ’’بے شک! جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذاب جہنّم ہے اور ان کے لیے آگ میں جلنے کا عذاب ہے۔‘‘ (البروج) رسول اکرمؐ کے فرمان کا مفہوم: ’’مسلمان کو اذیت نہ دو، انہیں عار نہ دلاؤ، اور ان میں عیوب مت تلاش کرو، کیوں کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرتا ہے ﷲ تعالیٰ اس کی عیب گیری کرتا اور جس کی عیب گیری ﷲ تعالیٰ کرنے لگے وہ ذلیل ہو جائے گا۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ ( جامع ترمذی) الزام تراشی کرنا: اس کا مطلب تہمت، بہتان، اتہام یا کسی کو قصور وار ٹھہرانا ہے۔ یہاں الزام سے مراد کسی پر جھوٹا الزام لگانا اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ بہتان ایک کبیرہ گناہ ہے۔ خاص طور پر اگر یہ تہمت پاک دامن عورتوں پر لگائی جائی تو لائق تعزیر ہے اور ایسے شخص کو اسّی کوڑوں کی سزا ہے اور ساتھ ہی ان کی گواہی آئندہ کے لیے ناقابل قبول ہے۔

الزام لگانے کی اس کے علاوہ بھی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ جیسے کسی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگانا، رشوت خوری کی تہمت دھرنا، کفر کے فتوے لگانا وغیرہ۔ الزام تراشی بھی بَدگوئی کی ایک قسم ہے جس سے اجتناب لازم ہے۔ الزام لگانے کی ایک صورت یہ ہے کہ لگایا گیا الزام درست ہو۔ اس صورت میں اگر نیّت اصلاح کی ہے تو یہ بَدگوئی نہیں۔ اگر نیّت تحقیر و ایذا رسانی کی ہے تو یہ بَدگوئی ہے۔ یوں بھی کسی کے منہ پر اس کی خامی کو بہت حکمت سے بیان کرنا چاہیے ورنہ فساد کا اندیشہ ہوتا ہے۔ مختلف طبقات میں بدگوئی کی نوعیت: یوں تو بدگوئی ایک عام مرض ہے لیکن کچھ مخصوص طبقات میں خاص قسم کی بدکلامی کی جاتی ہے جن پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ نوجوانوں میں بدگوئی: نوجوانوں میں عام طور پر بدگوئی کے جو انداز زیادہ عام ہیں ان میں ایک دوسرے کو بُرے ناموں سے پکارنا، مذاق اڑانا، کسی چڑ کی بنا لینا وغیرہ زیادہ عام ہیں۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کا ایک مسئلہ فحش گفت گُو بھی ہے۔ عام طور پر جنس پر مبنی لطیفے، چٹکلے، بُرے القابات، گالیاں اور کلمات ایک دوسرے کے سامنے بولے جاتے ہیں۔

خواتین میں بدگوئی: خواتین کی بدزبانی کے طریقے عام طور پر کسی پر طنز و تشنیع، طعنے بازی، متعلقات جیسے کپڑوں، زیورات، میک اپ وغیرہ پر نکتہ چینی اور ایک دوسرے پر بلا جواز الزام تراشی پر مبنی ہوتے ہیں۔ خواتین میں عام طور پر بدگوئی کا سبب حسد، جلن اور عدم برداشت ہوتا ہے۔ مردوں کی بدگوئی: مرد حضرات عام طور پر تُو تڑاخ، گالم گلوچ، فحش القابات وغیرہ کے ذریعے اس عمل کو انجام دیتے ہیں۔ اسی طرح مرد حضرات کی بدگوئی کے اہم موضوعات میں دفتری اختلافات، سڑک حادثے پر لڑائی، زمین کا مسئلہ یا کسی عورت پر جھگڑا وغیرہ شامل ہیں۔ مذہبی حلقوں میں بدگوئی: مذہبی حلقے میں علماء اور ان کے مقلدین دونوں شامل ہیں۔ علماء کی بدگوئی میں ایک دوسرے پر کفر کے بلا جواز فتوے لگانا، مخالفین کو منافق، زندیق وغیرہ کہنا شامل ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے کو ان القابات سے پکارا جاتا ہے جس سے مخالف چِڑنے پر مجبور ہو جائے۔ دوسری جانب ان علماء کے مقلدین اپنے علماء کی تقلید میں ان سارے القابات کو مزید نئے ناموں کے ساتھ بازاری زبان میں بیان کرتے ہیں۔

بدگوئی کے اسباب: بدگوئی کے چند اسباب مندرجہ ذیل ہیں۔
تکبر، نفرت اور کینہ، منفی سوچ، حسد، زیادہ بولنے کی عادت، احساسِ کم تری، انتقام و بدگمانی، غصہ، تحمل کی کمی، مخاطب کے جذبات سے لاعلمی وغیرہ۔ بدگوئی سے بچنے کے طریقے: بدگوئی سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ سب سے پہلے وہ سبب معلوم کیا جائے جس کی بنا پر بدگوئی کی جا رہی ہے اور پھر اس سبب کے مطابق علاج کیا جائے۔ مثال کے طور پر اگر بدگوئی کا سبب غصہ ہے تو اس ہر قابو پایا جائے، اگر سبب بہت زیادہ بولنا ہے تو کم بولنے کی مشق کی جائے وغیرہ۔ ﷲ تعالیٰ ہمیں اس مہلک بیماری سے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین

مولانا رضوان اللہ پشاوری

بشکریہ ایکسپریس نیوز

وقت کی قدر و قیمت جانیے

پروردگارِ عالم کی ذاتِ پاک کی عطا کردہ زندگی میں، ساعتیں، لمحے، گھڑیاں، دن، ماہ و سال اور صدیاں وقت کے تابع ہیں کہ جوں جوں وقت گزرتا ہے تو گزرنے کے اِس عمل سے دن، ہفتے، ماہ و سال اور صدیاں جنم لیتی ہیں۔ ماہ و سال اور صدیاں تو ختم ہو جاتی ہیں، مگر وقت کبھی نہیں رکتا بس گزرتا ہی چلا جاتا ہے۔ مگر ہاں! انسان اگر چاہے تو اپنے نیک مقاصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی منزل کا تعین کر سکتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ انسان بے اختیار ہے، مگر اتنا بھی نہیں کہ وہ اپنے وقت کو اپنی مرضی سے مصرف میں نہ لا سکے۔ لیکن یہ اُس وقت ممکن ہوتا ہے کہ جب انسان وقت کی قدر و اہمیت سے شناسائی رکھتا ہو۔ ہم ﷲ تبارک و تعالیٰ کے خاص فضل و کرم اور رحمتِ عالم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہِ رحمت سے اسلام میں داخل ہوتے ہوئے، اور آپ صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت میں شامل ہونے پر خوش قسمتی کے عظیم اعزاز سے نوازے جا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خوش قسمتی کا یہ عظیم اعزاز ہم سے اِس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم بہ حیثیت مسلمان باقی مذاہب کے ماننے والوں سے بڑھ کر وقت کی قدر کریں۔

وقت کی قدر جاننے کے لیے ہمیں کسی غیر کے دروازے پر دستک نہیں دینا پڑے گی۔ کسی کے آگے جھکنا نہیں پڑے گا، جھوٹے اور خود ساختہ آقائوں سے ہدایات لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، نا ہی اِس کے لیے ہیرے جواہرات اور مال و دولت کے انبار درکار ہیں۔ بس ذرا دل کے کسی ایک گوشے میں وقت کی قدر جاننے کے لیے تھوڑی سی تڑپ ہونا چاہیے۔ الحمدﷲ! دنیا کی سب سے عظیم کتاب قرآن حکیم میں ﷲ اور دنیا کے سب سے عظیم اور بڑے راہبر، ہادی عالم، محسنِ انسانیت صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے فرامینِ مقدس کی روشنی میں وقت کی قدر و اہمیت کا پتا اور اس کے گزارنے کے روشن اصول ملتے ہیں۔ بات مزید آگے بڑھانے سے قبل یہ بات اور نکتہ پیش کرنا بھی ضروری ہے کہ جو جتنی بڑی ذات ہو گی، اُس کے اُتنے ہی بڑے اہم اور روشن اصول ہوں گے۔ دنیا میں سب سے بڑی حقیقت اور سچائی یہی ہے کہ خالقِ کائنات ﷲ سے بڑھ کر کوئی ذات نہیں اور لباسِ بشریت میں ملبوس ہادی عالم صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑھ کر کوئی راہبر نہیں۔ اب بھلا ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ﷲ کسی کم تر چیز کی قسم، بارہا کھائے۔ پروردگارِ عالم نے کئی مقامات پر مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے۔

سورۃ الفجر میں وقتِ فجر اور عشر ذوالحجہ کی قسم کھائی ہے، مفہوم: ’’فجر کے وقت کی قسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی) اور دس (مبارک) راتوں کی قسم۔‘‘ پھر ایک مقام پر ربِ قدوس نے رات اور دن کی قسم بھی کھائی، مفہوم: ’’رات کی قسم جب وہ چھا جائے (اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپا لے) اور دن کی قسم جب وہ چمک اُٹھے۔‘‘ اسی طرح سورۃ الضحیٰ میں ربِ کائنات نے وقت چاشت کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’قسم ہے وقتِ چاشت کی (جب آفتاب بلند ہو کر اپنا نُور پھیلاتا ہے) اور قسم ہے رات کے وقت کی جب وہ چھا جائے۔‘‘ پھر ایک جگہ خدائے واحد نے سورۃ العصر میں زمانے کی قسم کھائی ہے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ اکثر ہمارے احباب نادانی اور کم علمی کی وجہ سے زمانے کو بُرا کہتے اور کوستے ہیں، یہ سخت گناہ ہے۔ کیوں کہ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے، مفہوم: زمانہ میں خود ہوں۔ العصر میں ارشاد ہوتا ہے، مفہوم: ’’زمانے کی قسم (جس کی گردش انسانی حالات پر شاہد ہے) بے شک! انسان خسارے میں ہے۔‘‘ (کیوں کہ وہ اپنی عمرِ عزیز گنوا رہا ہے)

حضورِ اقدس صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’صحت اور فراغت ﷲ کی طرف سے یہ دو ایسی نعمتیں ہیں کہ جس کے بارے میں لوگ اکثر خسارے میں رہتے ہیں۔‘‘ ربِ غفور انسان کو جسمانی صحت اور فراغتِ اوقات کی انمول نعمتوں سے نوازتا ہے تو اُن میں سے اکثر نادان انسان یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ ساتھ رہیں گی اور انہیں کبھی زوال نہ ہو گا۔ حقیقت یہ ہے یہ صرف شیطانی چال اور وسوسہ ہوتا ہے، جس کی بِنا پر انسان اِدھر اُدھر کے فضول اور بے سود کاموں میں اپنے آپ کو مصروف کر بیٹھتا ہے۔ جس کا نا کوئی دنیا میں فائدہ اور نا آخرت کا سامان۔ حضور سیدِ عالم صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے فرمانِ مقدس کا مفہوم: ’’قیامت کے دن بندہ اُس وقت تک (بارگاہِ الہٰی میں) کھڑا رہے گا کہ جب تک اس سے چار چیزوں کے متعلق پوچھ نہ لیا جائے گا۔ اولاً: زندگی کیسے گزاری۔ دوسری: جو علم حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا۔ تیسری: مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ چوتھی: جسم کس کام میں کھپائے رکھا۔‘‘

اسی طرح کا ایک اور فرمانِ رسولؐ جس کے راوی حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہ ہیں ۔ آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔ بڑھاپے سے پہلے جوانی کو۔ بیماری سے پہلے صحت کو۔ محتاجی سے پہلے تونگری کو۔ مصروفیت سے پہلے فراغت کو۔ اور موت سے پہلے زندگی کو۔‘‘ اگر ہم اپنی اپنی زندگی کے گزرنے والے شب و روز، درج بالا سطور کے تناظر میں دیکھیں تو کیا ہم خود کو مطمعن پائیں گے؟ یقیناً نہیں! ہم تو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اور لمحات فضول گپ شپ، واہیات فلمیں اور اخلاق سوز ڈرامے دیکھنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے دل دکھانے میں صرف کر دیتے ہیں۔ یوں گزرنے والے ماہ و سال ماضی کا ایک حصہ بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ تلخ و شیریں یادوں سے بھرا سال ماضی کا حصہ بن گیا۔

یہ حقیقت ہے کہ گزرا وقت واپس نہیں آتا، مگر آنے والا ہر لمحہ اور ہر صبح کو طلوع ہونے والے سورج کی کرنوں سے پھوٹنے والی روشنی امید کا پیغام ضرور دیتی ہے۔ یہی ایک امید ہی تو ہے کہ جس پر یہ دنیا قائم ہے۔ مایوسی کو گناہ قرار دیا گیا ہے۔ ربِ قدوس کے ہاں دیر ہے مگر اندھیر نہیں۔ ہمیں وقت کی قدر کرتے ہوئے امیدوں کے اس شجر سے وابستہ رہ کر نئی امنگوں اور جذبوں کے ستاروں کو اپنے آنگن میں اتارتے ہوئے اسلام اور وطن عزیز پاکستان کے مکار دشمنوں کے ناپاک عزائم کو اتفاق و اتحاد، خلوص و پیار، ایثار، ملی یک جہتی، جذبۂ حب الوطنی اور صبر و رضا کے انمول ہتھیاروں سے ناکام بنا سکتے ہیں۔ ﷲ کریم ہم سب کو اپنے حبیب صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے صدقے عمل کی توفیق و ہمت عطا فرمائے۔ آمین

صاحب زادہ پیر مختار احمد جمال تونسوی

بشکریہ ایکسپریس نیوز

اپنا محاسبہ کیجیے

سال مہینوں کی طرح اور مہینے دنوں کی طرح اور دن گھنٹوں کی طرح گزرتے چلے جارہے ہیں۔ یہ ہم سب کا مشاہدہ ہے اور آج کل تو ہم سب وقت میں بے برکتی کا شکوہ ہر محفل میں سنتے ہیں۔ ہر گزرتا ہوا دن ہماری عمر کو کم کرتا چلا جا رہا ہے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے ہر جان دار کے لیے موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے اور موت کو دنیا کے سبھی انسان چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب و فرقے یا قوم و علاقے سے ہو یک ساں تسلیم کرتے ہیں۔ ﷲ کے سوا کسی بشر کو یہ نہیں معلوم کہ کس جگہ اور کس مقام اور کس عمر میں اسے موت آئے گی۔ بعض بچپن میں، بعض جوانی میں چلے جاتے ہے بعض ادھیڑ عمری تک جیتے ہیں اور بعض ارذل عمری تک پہنچتے ہیں اور پھر داعی اجل کو لبیک کہتے ہیں۔ بعض نوجوان سُہانے مستقبل کے لیے اپنے منصوبے بنا رہے ہوتے ہیں اور انہیں معلوم تک نہیں ہوتا کہ موت کا فرشتہ ان کی تلاش میں روانہ ہو چکا ہے۔

گزشتہ برس ہی دیکھ لیجیے۔ کورونا کی وباء نے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے لوگوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا اور اب تک پوری دنیا کورونا کے عفریت کی زد میں ہے۔ آئے دن ہونے والے حادثات میں کیسے کیسے نوجوان ملک الموت اپنے ساتھ لے گیا۔ ایک دن ہمیں بھی ﷲ کے پاس حاضر ہونا ہے اور حساب کتاب دینا ہے۔ ﷲ تعالی نے بارہا قرآن عظیم الشان میں موت کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے، مفہوم: ’’تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آپکڑے گی، گو تم مضبوط قلعوں میں ہو۔‘‘ (سورہ النساء) مفہوم: ’’کہہ دیجیے! کہ جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو وہ تو تمہیں پہنچ کر رہے گی۔‘‘ (سورہ جمعہ) متعدد آیات ہیں جن میں ﷲ پاک نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ اپنی آخرت کی فکر کرو۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’جلدی سے نیکیاں کر لو، اس سے پہلے کے اندھیری رات کی طرح فتنے چھا جائیں گے، جس میں صبح کے وقت آدمی مومن ہو گا تو شام کو کافر بن جائے گا، یا شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کافر بن جائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم) گزشتہ سال کتنے لوگ ہمارے ساتھ تھے۔ اب قبروں میں ان کی ہڈیاں بھی بوسیدہ ہو چکی ہوں گی۔ آج ہم بہ قید حیات ہیں کچھ خبر نہیں کب ملک الموت ہماری جان نکالنے آجائے۔ تب ہمیں دنیا کی کوئی طاقت اس سے نہیں بچا سکے گی۔

اسی لیے ہمارے پیارے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کو قیمتی مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی راہ نمائی فرمائی اور موقع ہاتھ سے جانے سے پہلے اچھائی اور نیکیاں کر گزرنے کی ترغیب دی۔ اور فرمایا، مفہوم: ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت جانو! جوانی کو بڑھاپے سے پہلے۔ تن درستی کو بیماری سے پہلے۔ امیری کو فقیری سے پہلے۔ فراغت کو مصروفیت سے پہلے۔ اور زندگی کو موت سے پہلے۔‘‘ ( سنن نسائی) زندگی کو غنیمت جانو کیوں کہ موت کے ساتھ ہی عمل منقطع ہو جاتے ہیں، اس کی امیدیں مٹی میں مل جاتی ہیں اور اس کی ندامت کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ اپنی صحت کو غنیمت جانو کیوں کہ بیمار ہونے کے بعد انسان بہت سے اعمال کی سکت نہیں رکھتا اور صرف تمنا ہی کرتا رہتا ہے کہ کاش! نماز پڑھتا یا روزہ رکھ لیتا، یا نیک اعمال کر لیتا۔ اپنی فراغت کو مصروفیات کے آنے سے پہلے غنیمت جانو، کہ کہیں تمہیں دنیا مصروف نہ کر دے۔اور تم نیک اعمال کرنے سے محروم رہ جاؤ۔

اپنی جوانی کو غنیمت جانو، اس سے پہلے کہ تم عمر رسیدہ ہو جاؤ، جسم لاغر ہو جائے، اعضاء جواب دینے لگیں اور فرائض کی بجا آوری بھی دشوار ہوجائے۔ اپنی امیری کو غنیمت سمجھو، صدقات کرو، ﷲ کی راہ میں خرچ کرو، اس سے پہلے کہ تمہارا مال تم سے بچھڑ کر کسی اور کا بن جائے۔ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا، مفہوم: ’’قیامت کے دن انسان کے قدم ﷲ تعالیٰ کے سامنے سے نہ ہٹیں گے حتی کہ اس سے پانچ چیزوں کے متعلق سوال کیا جائے گا اور وہ ان کے جوابات دیدے۔ اس کی عمر کے بارے میں کہ کس چیز میں خرچ کی؟ اور اس کی جوانی کے متعلق کہ کہاں لگائے؟ اس کے مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور جن باتوں کا علم تھا اس پر کتنا عمل کیا؟‘‘ (سنن ترمذی) اس حدیث مبارکہ میں غور کیجیے۔ آج اپنا محاسبہ کرنے کا وقت ہے۔ آج ہم اپنی عمر کا بیشتر حصہ کہاں خرچ کر رہے ہیں ؟ ہم کن کاموں میں اپنا وقت اور صلاحیتیں لگا رہے ہیں؟ ﷲ کی اطاعت میں زندگی خرچ کر رہے ہیں یا معصیت میں؟ ہمارے مال کمانے کے ذرائع حلال ہیں یا حرام ؟ اور ہم اس مال کو خرچ کہاں اور کیسے کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے مال ﷲ کی راہ میں خرچ کر کے ﷲ سے نفع بخش تجارت کی؟ مال سے متعلقہ ہم نے ﷲ اور بندوں کے حقوق پورے کیے ۔۔۔؟

اپنا محاسبہ کیجیے کہ گزشتہ سال ہم نے کتنی نیکیاں کیں اور کتنے گناہ کیے؟ کیا ہم نے اپنے نامۂ اعمال میں ایسی نیکیاں درج کروائیں جو بہ روز قیامت ہمارے لیے خوشی و مسرت کا باعث بنیں گی؟ یا ہم غفلت میں ڈوبے رہے؟ اور اپنے نامۂ اعمال میں اپنی کوتاہیوں اور غفلت سے وہ درج کروا بیٹھے جو بہ روز قیامت ہمارے لیے حسرت اور ندامت کا باعث بنیں گی؟ گزشتہ سال کورونا وائرس کی جو وبا آئی اور اب تک مکمل ختم نہیں ہوئی اس سے ہم میں کیا تبدیلی آئی؟ کیا ہم میں تقویٰ پیدا ہوا ؟ کیا ہم نے رجوع الیٰ ﷲ کیا؟ کیا ہم پر ﷲ کے، اس کے رسول ﷺ کے اپنے عزیز و اقارب کے، پڑوسیوں کے جو حقوق تھے ہم نے ادا کیے؟ کیا ہم نے لوگوں کی راحت کا کچھ سامان کیا یا ان کی ایذا رسانی کا سبب بنے رہے؟ کیا اس سال بھی ہماری ساری کوششیں، مال و اسباب صرف اپنی دنیا بنانے میں خر چ ہوتے رہے یا ہم نے کچھ توشہ آخرت بھی جمع کر لیا ۔۔۔۔ ؟ لہٰذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم رجوع الی ﷲ کریں۔ سچی توبہ کریں اور بعد میں حسرت اور پشیمانی میں مبتلا ہونے کے بہ جائے اس دنیاوی زندگی میں ہی اپنے رب کو راضی کرنے کی فکر کریں۔

کرن فاطمہ

بشکریہ ایکسپریس نیوز

سعودی عرب نے ای عمرہ کے اجرا کا طریقہ کار جاری کر دیا

وزارت حج و عمرہ نے ای عمرہ گیٹ کے ذریعے ویزے کے اجرا کا طریقہ کار جاری کر دیا ہے- ایسے ممالک سے زائرین عمرہ گیٹ کے ذریعے عمرہ ویزہ کی کارروائی کر سکیں گے جہاں سے مملکت آنے پر پابندی نہیں ہے- عاجل، اخبار 24 کے مطابق وزارت حج نے ٹوئٹر کے اپنے اکاؤنٹ پر بیان جاری کر کے کہا ہے کہ ایسے ممالک کے شہری جہاں سے مملکت آمد پر کوئی پابندی نہیں- عمرہ ویزہ مندرجہ ذیل کارروائی کر کے حاصل کر سکتے ہیں-  زائر، وزارت حج و عمرہ کی لائسنس ہولڈر ٹریولنگ ایجنسی یا کمپنی کا انتخاب کرے- مناسب پیکیج اختیار کرے- پیکیج کی رقم ادا کرے، پیکیج رہائش اور ٹرانسپورٹ جیسی بنیادی سہولیات پر مشتمل ہو گا-  عمرہ زائر ٹریولنگ ایجنسی یا متعلقہ کمپنی کے دفتر جا کر اپنا پاسپورٹ پیش کرے اور وہاں عمرہ پروگرام سے متعلق متعلقہ فارم پر کرے-

نیز اپنے وطن سے ارض مقدس روانگی اور وہاں سے واپسی کی تاریخ متعین کرے-سفر سے قبل عمرہ ویزے کے اجرا کی مندرجہ ذیل شرائط پوری کرنا ضروری ہیں- آمدورفت کا ٹکٹ کنفرم ہو- میڈیکل انشورنس سکیم حاصل کر چکا ہو- مملکت میں منظور شدہ کورونا ویکسین لے کر مصدقہ رپورٹ پیش کرے- عمرہ کی ادائیگی اور مسجد نبوی کی زیارت کی تاریخ اور وقت کا اصولی وقت حاصل کرے- وزارت حج و عمرہ نے توجہ دلائی ہے کہ عمرہ زائر کو پیروی کے لیے سپیشل نمبر دی جائے گا- جسے دکھا کر وہ سعودی وزارت خارجہ کے ماتحت ای ویزا سروس پلیٹ فارم سے عمرہ ویزہ کی درخواست پیش کرسکے گا

بشکریہ اردو نیوز

پیغمبر اسلام کی توہین آزادی اظہار نہیں ہے : روسی صدر پوتن

روسی صدر ولادی میر پوتن کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلام کی توہین کو آزادی کا اظہار نہیں کہا جا سکتا۔ روسی خبر رساں ادارے ٹاس کے مطابق روسی صدر کا کہنا تھا کہ ’پیغمبر کی توہین مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی ہے اور یہ ان لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہے جو اسلام کے ماننے والے ہیں۔‘ روسی صدر نے ان ویب سائٹس پر بھی تنقید کی جن پر دوسری عالمی جنگ میں مرنے والے روسیوں اور نازیوں کی تصاویر پوسٹ کی جاتی ہیں۔ پوتن کا کہنا تھا کہ ایسی حرکات انتہاپسندی میں اضافہ کرتی ہیں۔ انہوں نے پیرس میں شارلی ایبدو میگزین کے ادارتی دفتر پر ہونے والے حملے کی مثال دیتے ہوئے کہا ایسی باتیں انتہا پسندانہ سوچ میں اضافہ کرتی ہیں۔  یاد رہے فرانسیسی میگزین شارلی ایبدو نے چند سال قبل ایسے خاکے شائع کیے تھے جن پر مسلمان ممالک کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔

اپنی پریس کانفرنس میں روسی صدر نے جمالیاتی آزادی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’مجموعی طور پر تخلیقی آزادی کی حدود مقرر ہونی چاہییں اور ان میں کسی اور کی آزادیوں کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔‘ روسی صدر کا مزید کہنا تھا کہ ’روس ایک کثیر النسلی اور کثیرالمذہبی ملک کے طور پر ابھرا ہے اس لیے روسی ایک دوسرے کی روایات کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن کئی ممالک میں ایسا احترام کم ہی پایا جاتا ہے۔‘ روسی صدر پوتن کے اس بیان پر پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا اپنی ٹویٹ میں کہنا ہے کہ ’میں روسی صدر کے اس بیان کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ یہ میری اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام کی توہین آزادی اظہار نہیں ہے۔‘  ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم مسلمانوں، بالخصوص مسلمان رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ غیر مسلم دنیا کے رہنماؤں تک اس پیغام کو پہنچایں تاکہ اسلاموفوبیا کا مقابلہ کیا جا سکے۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو